بدھ، 8 مئی، 2013

یہ دکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے !


پچھلے دنوں ایک معتبر ترین عالم دین کا الیکشن کی "قباحتوں " پر بیان پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ جس میں امیدواروں کو خوف خدا کے ساتھ دیانتدارانہ انتخابی مہم، مخالفین پر بے جا الزام تراشی سے گریز ، جھوٹ اور چغلی وغیرہ کے سدباب ، اسراف اور تبذیر سے گریز کرتے ہوئے ایمان دارانہ انداز میں سارے انتخابی عمل کو بحسن و خوبی انجام دینے کی تلقین کی گئی ہے، اور اس کے نتیجے میں ممکنہ رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا مژدا بھی سنایا گیا۔ مثلا ایک اچھی قیادت کا انتخاب اور قوم و وطن کی بھلائی اور خیر خواہی وغیرہ۔

فرزندان مدارس و مساجد پر ہی کیا موقوف، جدید تعلیم یافتہ اور ماڈرن اسلامسٹ کہلانے والے بھی دونوں ہی آج یہ بات باتکرار کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ووٹ ایک امانت ہے اور اس امانت کو ایسے استعمال کریں کہ ایک امانت دار اور "صالح" قیادت سامنے آئے ، وغیرہ وغیرہ۔

ایسے تمام لوگ معاملے کی صرف اس سطح کو دیکھتے ہیں ، یا دیکھنا چاہتے ہیں جو گلیاں سڑکیں بنانے ، ترقیاتی اور مفاد عامہ کے کاموں سے متعلق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سطح کو یا تو سمجھتے ہی نہیں ہیں ، یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے پس پشت ڈال دیتے ہیں جس کا تعلق ان "عوامی نمائندوں" کے اللہ کے مقابلے میں ایک الگ ہی دین و شریعت گھڑنے اور خدا کی مخلوق پر نافذ کرنے سے ہے۔

پھر یہ شریعت سازی ہوتی کیوں ہے، اس پر بھی غور نہیں کرتے شاید ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شریعت اس لیے معرض وجود میں نہیں لائی جاتی کہ قرآن کی طرح طاقوں میں سجا اور آنکھوں سے لگا کر اس کا حق ادا کر دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شریعت تو عدالتوں میں فی الفور نافذ ہوتی ہے اور عدالتیں از روئے ایت قرآنی ""واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل"" "دلیل" لیتے ہوئے خدائی انصاف کی بجائے اس انسانی وضع کردہ دین کو انصاف کی صورت میں نافذ کر دیتی ہیں !!!

عوام کالانعام ان عدالتوں میں وہ "حق" لینے جاتے ہیں جو ان کو حق کی پڑیا میں باطل بنا کر دیا جاتا ہے اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی (( اگر غلطی سے "حق" مل جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ وہ بھی نہیں!! ))

تب یہ جدید پارلیمانی دین اور اس کے نئے سے نئے ایڈیشن گاہے بگاہے نظر ثانی سے گزرتے ہیں اور "قانون نافذ کرنے والے ادارے" ان کی بنا پر زمین کو "عدل و انصاف" سے بھر دیتے ہیں !!

یوں "امانتوں کے لوٹائے جانے" کا وہ عمل جو مفتیان شرع متین اور زعمائے تحریکات اسلامیہ کے ہاں سے دستار فضیلت پا کر بابرکت انداز میں شروع ہوا تھا، اب عمل کی دنیا میں اگلے پانچ سال تک ایک خاص خطہ زمین پر خدا کی خدائی کو 300 ان پڑھ/ نیم پڑھے لکھوں میں خوشی خوشی بانٹ بھی دیتا ہے اور یہ عین منشائے فطرت اور تقاضائے شریعت بھی قرار پاتا ہے!!

کاش یہ لوگ غور کر لیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 60 سال بعد ہی سوچ لیں کہ عملا تو اس جمہوریت خبیثہ نے ہمیں کیا دینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو نقصان اس قومی سطح کے شرک سے ہم اپنی آخرت کا کر چکے ہیں اور کرتے جا رہے ہیں وہ کتنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا ہی بڑا ہے !
کیونکہ دنیا کا رونا کوئی نہین ہے ، اصحاب الاخدود بھی جلا دیے گئے تھے اور پیغمبر تک بے دردی سے شہید کر دیے گئے تھے لیکن ان کی کامیابی و کامرانی کے قصیدے آج بھی قرآں میں موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کتنے ہی دنیا میں عیش کرنے والوں کے عذاب کی دردناکی ہے جس کا تصور ہی رلا دیتا ہے !!کاش ہمارے علماء اس پہلو پر قوم کی موجودہ زندگی سے آگے بڑھ کر اخروی زندگی پر بھی سوچ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دور حاضر کے اس صنم اکبر کا "حق" تو یہ بنتا ہے کہ ہر سطح پر اس کی حقیقت کو ایسے واشگاف الفاظ اور انداز میں کھولا جائے جیسے کسی دور میں قادیانیوں کی حقیقت اور ان کے کفر سے آگاہ کیا گیا تھا ، حتٰی کہ اب مسلمانوں کے کسی دور دراز گاؤں کا بچہ بھی کسی دلائل و براہین قاطعہ کی سمجھ بوجھ سے عاری ہونے کے باوجود قادیانیوں کے کفر اور ان کے گندے موقف کے خلاف ایستادہ چٹان کا کردار ادا کرتا ہے۔

کفر کا اہل ایمان پر یہی "حق" ہوتا ہے کہ وہ اس سے انکار کریں! اور جتنا جس کسی کا حلقہ اثر ہے وہ اس انکار کا دائرہ بھی اتنا ہی وسیع کر دے۔ غلبہ کفر کا مطلب بھی یہ نہیں ہوتا کہ اب کفر سے سمجھوتوں کی سوچنی شروع کر دی جائے کہ یہ تو جانے والانہیں ہے ہمیں ہی کچھ "لچک" لانی چاہیے!!

انبیاء و رسل کے ادوار میں کفر کا غلبہ کتنا واضح نظر آتا ہے ، کچھ کو حکومت نصیب ہوئی تو اکثر کو نہیں ۔ لیکن انہوں نے کفر کو اسی سطح پر دیکھاا ور لوگوں کو دکھایا جو خدا کی خدائی کے متصادم ہونے کا درجہ ہے ۔
کفر کے کسی بھی "اچھے " یا "نرم خو" میٹھے میٹھے پہلو کو سامنے کر کے لوگوں کو اسی نظام میں ساجھے داری کا درس نہیں دیا ۔ یہ توحید ہے اور یہی توحید کا تقاضا ہے کہ جب تک اصل الاصول پر لڑائی ہے تب تک بھلے 1001 "مشترکات نما" چیزیں ہی کیوں نہ پائی جائیں وہ ہمارا سبجیکٹ ہی نہیں ہیں !! ہاں خدا کی خدائی کو مانو تو دیکھیں گے!

الیکشن کے تازہ فسانے میں ہمیں ہر رنگ نظر آتا ہے، سیکولرز اور لبرلز کتنے ہی فلیورز اور لیولز میں ہوں وہ اس بات پر متفق و متحد ہیں کہ حاکمیت کو خدا کے لیے خاص نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہیں۔

اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ آئین میں "یہ" لکھ دیا گیا ہے اور قانون "وہ" بن گیا ہے اس لیے اب کچھ نہیں ہو سکتا !، اس کی صرف اور صرف وجہ یہ ہے کہ خود اہل اسلام کے علماء اور "فقہاء" اس بارے میں درجہ اول سے نیچے آ چکے ہیں۔ وہ اس بنیادی فرق کو نظر انداز کرنے پر تیار ہی نہیں عملا قائل وفاعل ہو چکے ہیں جس بنیادی فرق کی خاطر بلال اور خباب نے مکہ کی گلیوں کو خوں رنگ کیا تو حنین اور خیبر کے معرکے لڑے گئے۔

اسلامی حلقے اس کرنے کے کام پر کمربستہ تو ہو کردیکھیں، پھر دیکھتے ہیں کہ انسانوں پر انسانوں کی خدائی کو کس طرح مزید چلایا جا سکتا ہے!!، اور جب آگہی ہی نہیں دی جائیگی تو کیسے شعور آئے گا اور کیسے اس نظام کو بدلنے کی سوچ اور کہاں جا کر نظام کا تلپٹ ہونا اور پھر خلافت کا قیام !!! خیال است ومحال است و جنوں، کم از کم یہ تھوڑا تھوڑا کر کے "کفر کی قبولیت" والا طرز عمل تو یہی ہی ثابت کر رہا ہے۔


فرق کچھ نہیں ، صرف لات و منات کے چولے بدلنے کا عمل وقوع پذیر ہو اہے اور ہم حق سے کچھ کم پر نہیں بہت کچھ کم پر راضی ہو چکے ہیں!!
اسی لیے ہماری حالت نہیں بدلتی اور اسی لیے ہم پر آسمان سے برکتوں کے در وا نہیں ہوتے ۔

لیکن افسوس یہ ہے کہ اس سارے منظر نامے میں ہمیں اگر کوئی رنگ نظر نہیں آتا، کوئی صدا سنائی نہیں دیتی تو وہ حاکمیت جمہور کا یہ بڑا اکھاڑہ سجنے وقت انہیں احکم الحاکمین کی خالص حاکمیت کی طرف بلایا جائے، پکارا جائے، یا قومنا اجیبوا داعی اللہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے قوم اللہ کے منادی کی پکار سن لو! کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ بتائیں کہ جمہوریت شرک ہے تو کیسے؟ حاکمیت الٰہی کیا ہوتی ہے؟؟ اور نظام باطل اللہ کا حق بندوں کو کیسے تفویض کرنے کی کوشش کرتا ہے ؟؟ اور اب تک اس سب کچھ کے اجتماعی ثمرات کیا ہیں؟؟ اگردنیاوی ثمرات ایک لاکھ ہوں تو بھی کس قیمت پر ہیں !!

یہ دکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے
ملال یہ ہے کہ اب صبح کی طلب بھی نہیں

7 تبصرے:

  1. آپ نے اپنا ہی نہیں ہر درد مند مسلمان کا درد لکھا ہے۔
    اور خوب لکھا۔
    جمہوریت کا کفر یہ ہے کہ اس میں شخصی حکومت ہوتی ہے۔ جو کہ چناؤ کے بعد شخصیات کی حکمرانی میں بدل جاتی ہے۔
    اور یہ شخصیات حدود اللہ کو عبور کرنے کیلئے مشاورت سے وچکارلے راہ کیلئے قانون سازی کر لیتے ہیں۔
    سچ تو یہ ہے کہ ہمارے علما کرام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسجد اور مسلک تک محدود ہو چکے ہیں۔معاشرت ، حکمرانی ، جو کہ دین کا اساس ہے۔۔۔مذہب سے مفقود نظر آتا ہے۔۔یا پھر تشدد اور انتشار کا شکار۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. محترم جمہوریت کفریا نظام کہنے میں تو ہم بہت بے باک ہیں لیکن اس کے عاملین کے بارے میں بات کرتے ہوئے منافقت کی حد تک محتاط ہو جایا جائے۔
    فلاں کو کافر کہنا ہے فلاں کو گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فلاں کے بارے میں سکوت اختیار کرنا ہے۔ ہاں جو علماء نما جمہوری سیاسیدان ہیں ان کا احترام برقرار رکھتے ہوئے ان کی تعریفوں کے پُل بھاندنے ہیںبس ایک معذرت خوانہ انداز میں فقت اتنا کہنے کی اجازت ہے کہ اس معاملے پر وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔
    حضور حق کو حق اور باطل کو باطل جب تک واشگاف الفاذ میں کہنے کی ہمت اپنے اندر پیدا نہیں کرلیتے، تب تک " "اُسی طوطی کا کردار" آدا کرتے رہیں جس کی نقار خانے میں کوئی نہیں سنتا

    جواب دیںحذف کریں
  3. یار اتنی مشکل مشکل پوسٹیں لکھے گا تو اسکی شرع واسطے ایک الگ بلاگ بھی لکھے کر :)

    جواب دیںحذف کریں
  4. جاپانی انکل ! دکھ اس بات پر زیادہ ہوتا ہے کہ "میدان خالی نہ چھوڑنے" کا کہہ کر میدان میں کودے تھے اور الٹا اس کے نتیجے میں جو دینی تصورات اور ساکھ کی "واٹ" لگی ہے اس کا دکھ ہوتا ہے کہ حق کو ایک شارٹ کٹ کے ذریعے تلاش کیا گیا اور نتیجہ یہ کہ آج صفر جمع صفر جواب صفر !

    دس سال بھی شاید لمبی مدت گردانی جائے، اگر پانچ سال بھی ڈٹ کر اس گند بلا پر لعنت بھیج کر لوگوں کو اس اجتماعی زندگی میں کے شرک سے آگاہی دی جائے اور خدا کی حاکمیت کی طرف بلایا جائے تو ان جلیبی نما فلسفوں اور راستوں کی بھول بھلیوں کی ضرورت ہی نہ رہے جن میں آج کا دینی طبقہ ٹکریں مار مار رہ گیا ہے لیکن منزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منزل کا پتہ نہیں !

    جواب دیںحذف کریں
  5. مہتاب صاحب! پہلے نظریہ کی بات کری جاتی ہے اور اگر وہی لووگوں میں عملا اجنبیت کو چھو رہا ہو تو ایسے میں فلان ڈھمکان صاحب کی شان میں قصائد رقم کرنا بے معنی اور الٹا آپ کی بات کو سمجھنے میں رکاوٹ کا اکردار ادا کرتا ہے !!

    ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص کو ایمان اور کفر کا فرق ہی پتہ نہ ہو لیکن ہم اس کے سامنے فرعون اور ابو جہل کو برا بھلا کہتے رہیں ، کیا فرق پڑتا ہے ؟؟؟

    سو برادر بنیاد پر کام ہونے والا ہے اور آپ عمارت کی چھت پر سولر پینل لگانے نکل گئے ہیں :)

    جواب دیںحذف کریں
  6. ÷یار اتنی مشکل مشکل پوسٹیں لکھے گا تو اسکی شرع واسطے ایک الگ بلاگ بھی لکھے کر :)÷

    شرع نہیں شرح ، اور ہاں بلاگ کا نام تجویز کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے تیرے بلاگ کے ہوتے ہمیں کہیں ہور جان دی کی ضرورت اے ؟ :)

    تیرا بلاگ بھی تو معیاری تحریریں بلا تفریق رنگ و نسل چھاپ ہی دیتا ہے ، کی خیال اے :پ

    جواب دیںحذف کریں
  7. اچھا خیال ہے یار، میری بلاگ پوسٹوں کے دروازے تو ہر امیر غریب، کمینے کتے، انصافی نونی، پیپلی جماتی، لبرل طالبانی کے واسطے اوپن ہیں
    جم جم آؤ

    جواب دیںحذف کریں