جمعہ، 13 دسمبر، 2013

راہ یقین، زاویہ نگاہ، شہادت فی سبیل اللہ

کامیابی اور ناکامی کو مادے کے ترازو میں تولنے والے کبھی بھی مابعد الموت کی حقیقتوں پر یقین نہیں کر سکتے تو موت میں کامیابی پا جانے کے فلسفے کو کیسے سمجھ سکیں گے ، کبھی نہیں !

اس فلسفے کی جڑیں ایک طرف ایمان بالآخرۃ میں پیوست ہیں تو دوسری طرف اُس ذات پر لا زوال یقین کے دل کے نہاں خانوں میں گندھے ہونے کا تقاضا کرتی ہیں۔ نہ تو کمزور ایمان والا ایسی استقامت کااہل ہو سکتا ہے اور نہ ہی یقین کی راہ میں لڑکھڑانے والے یہ مقام عالی شان سہار پاتے ہیں !

راہِ ابراہیم تو بلال و خباب کا سا یارا مانگتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گوشت ہڈیوں سے الگ ہوتا، پگھلتا ہے تو کامیابیوں کی نوید ملتی ہے،کہیں آل یاسر کو کہا جاتا ہے "صبرا صبرا یا آل یاسر ! آل یاسر صبر کرو تمہارا بدلہ جنت ہے!" پھر کہیں خبیب سامنے ہوتے ہیں " اگر انگ انگ کاٹ لیا جائے تو بھی گوارا نہیں ہے کہ نبیؐ کو ایک کانٹا بھی چبھ جائے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بعد شہادت شاہزادوں کو ایک کفن کا کپڑا بھی پورا نہ ہو تب مقام آتا ہے کہ خون کا قطرہ زمین پر بعد میں گرتا ہے مقامِ علیین پہلے دکھا دیا جاتا ہے۔

یہ اصحاب الاخدود کی راہ ہے!!

جہاں اجسام جلتے بھنتے ہیں تو ہی ارواح بلندیوں کا سفر طے کرتی ہیں۔ کامیابی کے معیارات یہاں طے ہوتے ہیں۔ جلنے مٹ جانے والے ، فنا کے سفر پر روانہ کر دیے جانے والے تب کامران اور سب سے بڑی کامیابی کے ٹھپے لگواتے نظر اتے ہیں اور مادہ پرستی کی جیت ، دو دن کے ''حاکم اعلیٰ'' کی فتح عظیم ناکامی  !!!

بس دیکھنے والی نظر چاہیے ! ایمان کے حقائق سے دنیا کو دیکھنے والی نظر ۔۔۔۔۔۔۔۔ دیدہ عبرت نگاہ اور نور ایمان سے منور بصیرت الٰہی سے جڑی نگاہ بصیرت افروز۔ پھر شھید کے زندہ ہونے پر بھی حق الیقین ہو جاتا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وعدوں کے برحق ہونے پر بھی ۔ پھر باطل کتنا پرشکوہ ہو جائے  نگاہیں کچھ اور ہی دیکھ رہی ہوتی ہیں ایک زیر لب مسکراہٹ اس سارے سطوت و جبروت کی خاک اڑاتی ہے! اور وعدوں پر ایسا لازوال یقین کہ نیزے کی انی سینے سے پار ہوتے ہوتے بے اختیار صدا نکلتی ہے " رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا"۔

عبداللہ بن جبیر، دربارِ حجاج میں گرجتے نظر آتے ہیں کہ حجاج آج طریقہ اختیار کر لو ، جس طریقے سے مجھے مارو گے تمہیں بھی اسی طریقے سے روز قیامت مارا جائے گا !!! افق کے اس پار دیکھنے والی نگاہیں تب موت کو ہی محبوب ترین چیز بنا چھوڑتی ہیں۔اورجس نے "اُس پار" جھانک لیا پھر وہ طعنوں باتوں اور فتوؤں سے کہاں رکتا ہے۔ تب یقینی موت کو گلے لگانے رخصت ہونے والا ہنستا اور "بچ جانے والے" روتے ہیں !!!

زبان کی وفاداریاں تو ہر دور کے عبداللہ بن اُبی بھی جتاتے رہے ہیں ۔ سید احمد سے احمد یاسین تک، عمر المختارسے شامل بسایوف تک ، اور سید قطب سے عبدالقادر مولہ تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شہداء ہیں جو اپنے خونِ رگِ جاں سے حق کی گواہی دیتے ہیں! شہادتِ حق کا سب سے بڑا درجہ اپنے خون سے ادا کر کے احساس دلاتے ہیں کہ امت کی خاکستر میں کچھ چنگاریاں شعلہ جوالہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں ابھی!!!

زبان رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا جاتا ہے: ""روز قیامت اہل عافیت آرزو کریں گے کاش ہمارے جسم قینچیوں سے کاٹ دیے جاتے پر آج ہمیں یہ مقام مل جاتا جو اہل بلاء و ابتلاء کو مل رہا ہے!!"" ( سلسلہ صحیحہ للالبانی)

ایک دار العمل ہے ایک دار الجزاء ہو گا ۔
اللہ کی رضا سب سے بڑی رضا ہے، اللہ کا صلہ سب سے بڑا صلہ ہے۔

اتوار، 17 نومبر، 2013

سانحہ راولپنڈی، عینی شاہدین اور حقائق

آج سرشام ہی کچھ ایسے حضرات سے گفتگو اور حقائق جاننے کا ارادہ تھا جو سانحہ راولپنڈی اور بعد کی صورتحال کو قریب سے دیکھتے رہے ہیں۔

کرفیو میں نرمی ہوتے ہی عشاء سے پہلے دار العلوم تعلیم القرآن کے ایک حافظ سے ملاقات ہوئی ، حافظ عبداللہ وہاں تجوید کا درس لیتا تھا اور بالکل گم صم نظر آ رہا تھا۔ اس نے زیادہ گفتگو سے کنارہ کش رہتے ہوئے مختصر جوابات دیے۔ اس بتایا کہ نماز جمعہ کا موضوع "واقعہ کربلا" تھا۔ میرے استفسار پر کہ کیا شیعہ کو کافر وغیرہ بھی کہا گیا تھا، اس کا جواب نفی میں تھا۔ یہ پوچھنے پر کہ تقریر کیا ہوئی تھی اور اس میں کیا کہا گیا؟ عبداللہ نے بتایا کہ امام صاحب نے واقعہ کربلا کے ذمہ دار خود کوفیوں کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہی لوگ شہادت حسین کے ذمہ دار ہیں۔ سانحے کے حوالے سے اس نے کہا کہ واقعے کے بعد خود وہ اور دوسرے طالبعلم اس وقت قرب و جوار کی مختلف مساجد میں پناہ گزین ہیں۔ مقتولین کی تعداد بتانے سے گریز کرتے ہوئے آخر میں اتنا کہا کہ  "تین لوگ میرے سامنے قتل کیے گئے اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا"۔

          اس کے بعد ایک بزرگ محترم یوسف صاحب سے بات چیت ہوئی جو مرکزی جامع مسجد (جامع مسجد روڈ) پر جمعہ پڑھنے کے بعد راجہ بازار سے ہوتے ہوئے واپس آئے تھے، ان کے بقول شیعہ حضرات ہاتھوں میں بلم نما تلواریں اور چھرے لیے تعلیم القرآن کے سامنے موجود تھے اگرچہ ابھی ہنگامہ آرائی شروع نہیں ہوئی تھی۔

          کل رات 12 بجے کے قریب مسجد تعلیم القرآن میں جانے والے انجمن تاجران کے ایک عہدیدار شیخ اشرف کا کہنا تھا کہ عقبی دروازے سے داخل ہوتےہی آٹھ لاشیں ابھی تک وہاں  پڑی تھیں اور اس سے اگے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا،باقی مسجد دھویں کی شدید لپیٹ میں تھی، آگ نے سب کچھ خاکستر کر دیا۔ شیخ اشرف مدینہ مارکیٹ کے سامنے ایک اور بڑی مارکیٹ مکہ مارکیٹ میں کپڑے کے ہول سیل تاجر ہیں۔

          اس پر میرے ذہن میں یہ تجسس کل سے ہی تھا کہ فوج کا کردار کب سے شروع ہوا اور کیا رہا؟ حد تواتر کو پہنچے ہوئے بیانات کے مطابق دوپہر تین بجے کے قریب مسجد و مدرسہ تعلیم القرآن میں قتل عام ہوا اور مدینہ مارکیٹ کو آگ لگا دی گئی۔

          آگ لگائے جانے کے فورا بعد پولیس غائب ہو گئی اور ایک گھنٹے سے زیادہ کے لیے عزاداران حسین معصوم بچوں اور طالبعلموں پر شجاعت کے جوھر دکھانے کے لیے آزاد چھوڑے گئے۔ پھر ان کے دلی ارمانوں کی تکمیل کے بعد افواج پاکستان تشریف لائیں اور اس "ماتمی" جلوس کے بحفاظت اپنی منزل امام بارگاہ روڈ پہنچ جانے تک موجود رہیں۔

          مغرب سے پہلے جلوس "بخیر و خوبی" اپنی حتمی منزل امام بارگاہ روڈ پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوا تو افواج کو اپنے "فرائض کی ادائیگی" کے بعد واپس بلا لیا گیا(جب کہ میڈیا مسلسل فوج کی موجودگی کا ڈھنڈورا پیٹتا رہا)۔ اس کے بعد رات ساڑھے گیارہ بجے تک صرف فائر برگیڈ اور ریسکیو کے اہلکار تھے اور روتے سسکتے تاجر اور دکاندار، یا طلباء کے لواحقین جو کسی نہ کسی طرح خبر ملنے پر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔

          ساڑھے گیارہ سے بارہ کے درمیان ریسکیو نے اعلان کیا کہ مدرسہ کلیر ہے اور تمام لاشیں نکال لی گئی ہیں، چنانچہ اندر پھنسے ہوئے باقی طلباء اور زخمیوں کو باہر نکال لیا گیا۔ اس کے بعد تھوڑی دیر بعد فوج کی آمد دوبارہ ہوئی اور کرفیو کا اعلان کر دیا گیا۔

          یہ ساری منظر کشی اہل علاقہ کے بیانات کی روشنی میں کی گئی ہے جو خود جائے وقوعہ پر موجود رہے اور جن میں سب سے پہلے حافظ عبداللہ کے علاوہ باقی سب ہی اس مخصوص مکتب فکر سے تعلق نہیں رکھتے جو دارالعلوم تعلیم القرآن کے منتظمین اور طلباء کا ہے۔ اسی طرح سارے بیانات ایک ہی گلی یا محلہ کے لوگوں کے بھی نہیں ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ رپورٹ ہوئی کہ میڈیا کی براہ راست کوریج کرنے والی تمام گاڑیاں فوارہ چوک میں ٹک ٹک دیدم کی مثال بنی رہیں، جبکہ ان کے چینل آخر وقت تک یہی کہتے رہے کہ مشتعل لوگوں نے ان کا عملہ یرغمال بنا لیا ہے، کوریج نہیں کرنے دی جا رہی۔ جبکہ جلوس کے جانے کے بعد ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں۔  نوبت نہ ایں جا رسید کہ مدرسہ کلیر کرنے کے بعد جب بچے کھچے طلباء باہر نکلے تو فوارہ چوک میں میڈیا کو دیکھ کر زبردستی انہیں جائے وقوعہ پر لیکر گئے جو بمشکل تین سو میٹر کی دوری پر ہے، انہیں بار بار کوریج کرنے کا کہنے کے باوجود بھی انہوں نے یہ کام کرنا تھا نہ کیا، اور واپس فوراہ چوک کے "مورچوں" کا رخ کیا۔

یہ تو تھا آزاد میڈیا کا کردار جو سوشل میڈیا کو جذبات بھڑکانےوالا کہتے نہیں تھکتا لیکن اس کی غیر جانبداری ہر ایسے ہرموقع پر سب پر کھل جاتی ہے۔ اگرچہ اب سوشل میڈیا پر تصاویر بھی آ چکی ہیں جن کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہ گیا کہ کس بے دردی کے ساتھ بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔ اب آخر میں ایک ڈاکٹر صاحب کا بیان کوٹ کرنا چاہوں گا ، ڈاکٹر صاحب کا نام میں دانستہ نہیں لکھ رہا۔ ان سے دو اہم باتیں معلوم ہوئیں: ایک تو یہ کہ سول ہسپتال میں دس لاشیں رکھ کر باقی شہداء کی میتیں دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کر دی گئی ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ اب انہیں اسلام آباد کے دو بڑے ہسپتالوں پمز اور ہولی فیملی بھی بھیجا جا رہا ہے۔ دوسری بات ڈاکٹر صاحب نے یہی بتائی کہ کسی کا پیٹ چاک ہے تو کسی کا ناک یا کان کٹا ہوا ہے۔

ایک بہت ہی افسوسناک خبر یہ کہ مسجد تعلیم القرآن کو اندر اور باہر دونوں طرف سے آگ لگائی گئی اور اس سے ملحقہ ایک عمارت گر چکی ہے، مسجد کے بارے میں بھی خدشات شدید تر ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اس کے مکمل طور پر جلائے جانے کے بعد اس کے نیچے موجود مدینہ مارکیٹ آج بھی آگ کی لپیٹ میں رہی اور ہر طرف سے عمارتی ڈھانچہ کھوکھلا ہو چکا ہے۔ شاید اب یہ اتنی خطرناک ہو جائے کہ اسے دوبارہ ہی تعمیر کرنا پڑے گا۔

           آخری بات  یہ کہ حکومت لواحقین کو خاموشی سے میتیں اپنے آبائی شہروں یا مضافات کے علاقوں میں ایک ایک کر کے دفن کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے تاکہ کل دن دو بجے لیاقت باغ کے اجتماعی جنازہ میں "گنتی" دس سے زیادہ نہ ہو اور اس کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔ ایک شہید کا جنازہ سرگودھا میں پڑھا بھی دیا گیا ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ  لال مسجد کی تاریخ کو دہرا کر ایک مرتبہ پھر پاکستان کو شدید ترین جنگ و جدل میں دھکیل دیا جاتا ہے یا سنجیدگی سے قاتلوں کو گرفتار کر کے زخموں پر کچھ مرہم کا بندوبست کیا جاتا ہے ، جس کی اندریں حالات امید کم ہی نظر آتی ہےکیونکہ حکومت نے کل بھی کرفیو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جبکہ علماء کی طرف سے کل ہی لیاقت باغ میں جنازے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔  یا الٰہی خیر !

         
         

بدھ، 14 اگست، 2013

"اسلامی وطن پرستی"

           کون کہتا ہے مسلمان وطن پرست نہیں ہوتا اور اسلام وطن پرستی کی نفی کرتا ہے؟اسلام تو سبق دیتا ہے کہ وطن کے لیے لڑو اور مرو، کٹ جاؤ لیکن وطن پر آنچ نہ انے دو ۔ ۔ ۔ ۔لیکن ایک منٹ! وطن پرستی ہے کیا؟؟ قومیت نام کس چیز کا ہے؟؟

کیا رنگ؟؟نسل، علاقہ وطن ہے؟؟یا زبان اس کی بنیاد ہے؟؟
لیکن تم نہیں جانتے مسلمان کا وطن کیا ہے!تمہاری وطن کی گنتی تو 1924 کے باؤنڈری کمیشنز اور سائیکس پیکو معاہدے سے شروع ہوتی ہے !!!

 مسلمان کا وطن تمہیں سلمان فارسی بتا گیا ہے ، سلمان بن اسلام بن اسلام بن اسلام!

            صہیب رومی سے مثنی بن حارثہ تک ، اور ابو بکر صدیق سے لیکرخالد بن ولید تک، کس کس کا نام آتا ہے ، اپنے ہم علاقہ، ہم قبیلہ، ہم زبان، ہم رنگ اور ہم نسل انسانوں   کے خون کی ندیاں بہا دینے میں !! کیوں؟؟ یہاں سے تمہیں ان کا "وطن" بھی خوب پتہ چلتا ہے اور ان کی "وطن پرستی" اور "وطن" کے لیے جان دینے کا جذبے کا بھی !!

 بس وطن کے معنی درست کر لو ، قومیت کی بنیاد سمجھ لو ،پھر تم "قوم پرست" بنو یا "وطن" کے لیے لڑو مرو !! تمہارا دین تمہیں اس کی اجازت نہیں حکم دیتا ہے !

  گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
 
صاحبو !مسلمان اگر لڑتا ہے تو دار الاسلام کے لیے ، خواہ وہ اسے بچانے کے لیے لڑے یا قائم کرنے کے لیے ۔ ۔ ۔۔ وطن پرست لڑے گا تو بنتی مٹتی سرحدوں کے تحفظ کے لیے یا زبان رنگ نسل کی بنیاد پر اسے قائم کرنے کے لیے !!

سو سب وفاداریاں ، سب جان نثاریاں ، سب محبتوں کے جھرنے اخوت اسلام سے پھوٹیں تو وہ قابل قبول ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ افراد کی سطح ہو، قوم کا لیول ہو یا بین الاقوامی تعلقات ہوں !!!

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جوآں بے تاب ہو جائے

لوگو! انسانی اجتماعی تعلقات میں اس سے بڑا تصوراور کوئی نہیں ہے ، اس سے بڑے "قومیت" اور کوئی نہیں ہو سکتی اور اس سے بڑا "وطن" اور کوئی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست!!!
ہر ملک میرا ملک ہے کہ میرے خدا کی ملکیت ہے !!!

اور اگر میں اپنے خدا کی ملکیت سب سے پہلے خود پر تسلیم کرتا ہوں تو مجھے اسی خدا نے باقاعدہ سارے جہان پر یہ ملکیت تسلیم کروانے کا ٹھیکہ دیا ہے !!!

کسی کو برا لگتا ہے تو لگے ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن یہ ذمہ داری خود قرآں میں محمد اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لگائی گئی ہے ۔ ۔ ۔۔

ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ الکافرون(الصف)
رسول کو ھدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا کہ اس دین کو سارے ادیان پر غالب کر دے اور اگرچہ کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔

جس کو قرآن پر تنقید کی جرات ہو اور بات ہے ، لیکن قرآن سے ادنیٰ سا شغف رکھنے والا بھی دوستی اور دشمنی کی اس لکیر کے علاوہ کسی لکیر کا فقیر نہیں ہو سکتا، جسے قرآن حزب اللہ اور حزب الشیطان کے مابین قائم کرتا ہے ۔

اس حد کے علاوہ بس ایک ہی اور زمرہ ہے ، ایک ہی اور کیٹیگری ہے جسے نفاق کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دونوں طرف "یکساں" اور "برابری کی سطح پر" تعلقات کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ۔ فتح اہل ایمان کی ہو تو ان کا دم بھرتے ہیں اور اگر اہل کفر کا پلڑہ بھاری نظر ائے تو ان کے سامنے قسمیں اٹھاتے نظر اتے ہیں !!اور ان میںگھسے چلے جاتےہیں کہ کہیں کوئی افتاد نہ آن پڑے!!

مبارک ہیں وہ لوگ جو ایمان کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی کا سب سے مضبوط کڑا تھامے اس کے لیے ہر سطح پر ہر طرح کی مشکلات خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں ۔ ہجرت، دربدری، زخم اور  قتل کونسا پہاڑ ہے جو ان پر نہیں توڑا گیا لیکن وہ قائم ہیں!

 اورخبر ہو ان غافلوں کو جو اخوت اور محبت کے اس عالمگیر تصور کو چند لکیروں کا فقیر بنائے بیٹھے ہیں،رنگ برنگے جھنڈوں اور ترنگوں کا اسیر کیے ہوئے ہیں اور چند برس پرانے ان خانوں اور جھنڈوں کے تقدس کے لیے جان بھی قربان کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں!!

لوگو! اسلام کا دامان عافیت قیامت تک تمہیں پکارتا ہے،وحدت کی ان بنیادوں کی طرف پلٹ آنے کے لیے جو انسانیت کے سب سے بڑے محسن نے قائم کی تھیں ، اور اس کے ساتھیوں نے انہیں ساری دنیا میں پھیلا دیا تھا۔

انسان کی عظمت ، انسان کے کھینچے ہوئے نقشوں اور جھنڈوں کی غلامی میں نہیں ان سے آزادی میں ہے ۔۔۔۔ اس کی عزت اگر ہے تو صرف مالک الملک کی بندگی ،اسی کی غلامی اور اطاعت میں ہے۔

باقی سب فانی ہے ، انسان ہوں یا ان کے خود ساختہ دستور اور عارضی سرحدیں !!
سو بقا کا دامن تھام لو، ڈوبنے والی کشتیاں سواروں کو نہیں بچایا کرتیں!!

سروری زیبا فقط اسی ذات بے ہمتا کو ہے
اک وہی ذات الٰہ باقی بتان آزری

ہفتہ، 10 اگست، 2013

بات کریں تو کس سے کریں ہم

بات کریں تو کس سے کریں ہم

دنیا والو کس سے کہیں ہم

آج کے دن یہ چاروں طرف جو

عید کا رونق میلاہے

جس میں قہقہے گونجتے ہیں

دل میں نغمے پھوٹتے ہیں


آج کے دن میں بچھڑے لوگوں،

گزرے لمحوں ، بیتی یادوں

اور اشکوں کی برسات کا

اک سیلاب کی صورت

انکھوں کے ہر ایک دریچے

دستک دینا ٹھہر گیا ہے !


بکھرے قہقہوں ، پیاری باتوں

گزری یادوں ایسے ہم دم

عید کے رونق میلے میں

جب بھی ملنے آتے ہیں

اور بھی تنہا کر جاتے ہیں!!!


عبداللہ آدم

09/08/13


ہفتہ، 8 جون، 2013

لاالٰہ الا اللہ


(( توحید رب العالمین کہ اساس ہے اسلام کی اور اولین عقائد میں سے بھی اول ہے، عملی زندگی میں اسی سانچے میں ڈھلنا یا بے رخی دکھانا  ہمیں اوج ثریا سے تحت الثریٰ تک لےآیا ہے!
زندہ قوت تھی زمانے میں جو توحید کبھی۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔آج کیاہے فقط ایک مسئلہ علم کلام))

                            
لاالٰہ

          پہلی چیز۔۔۔۔۔نفی مطلق۔۔۔ابن آدم پر عائد پہلا فرض۔۔۔دامن توحید کا پناہ گزین ہونے کی پہلی سیڑھی۔۔۔ شرک کی ساری آلائشوں کو دھو ڈالنا ۔۔۔۔ لازم ہے کہ بندہ سب کی نفی کرے۔۔۔۔۔نفی خود ساختہ ربوبیت کے دعوے داروں کی۔۔۔ سب پوجے جانے والوں کی۔۔۔ہر نظام ،ہر نظریہ حیات۔۔۔ سب کی نفی کر دے۔ ہر طاغوت سے اعلان برات ۔۔۔ ہرآمر وقت اور ۔۔۔بزعم خود حاکم مطلق سے ۔۔۔بیزاری کا اظہار ۔ ۔۔۔ ۔زباں سے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل ۔۔۔عملا کاربند ہو جائے کہ ۔۔۔ کسی فانی کی خدائی۔۔۔۔ اور حاکمیت ۔۔۔محض  روئے زمین پر ہی نہیں ۔۔۔کائنات کی ازلی ابدی وسعتوں تک پر ۔۔۔ محیط نہ تو پہلے کبھی تھی ۔۔۔ اور نہ آئندہ ہو سکتی ہے۔ ۔۔یہی پہلی "نہ" ملت ابراہیمی کا درس اولیں!۔۔۔ شجرہ ایمان کی اساس محکم !!


          نفی ہر اس کی ۔۔۔۔۔جس کی عبادت کی جائے۔۔۔ایسی ہرعبادت کی نفی۔۔۔ اور ان کی نفی جو عبادت کرتے ہیں!۔۔۔ الٰہ کی مثل۔۔۔مانند۔۔۔ الوہی خصوصیات کا حامل ۔۔۔کوئی بھی مانا جائے۔۔۔کسی کو بھی گردانا جائے ۔ ۔۔  تعظیم کے نام پر عبادت کو اس کے لیے بجا لایا جائے ۔۔۔۔یا نظام کائنات چلانے میں ۔۔۔ دخیل مانا جائے۔۔۔سب فریب نظر ہے ۔۔اس کے سوا کچھ نہیں۔۔۔ نفی ان تمام معبودانہ ناموں کی۔۔۔ان سے موسوم توہمات کی۔۔۔تصورات کی۔۔۔  اس سب فتورعقل  کی نفی ۔ ۔ ۔۔  خوہ وہ مشکلات کو حل کرنے۔۔۔یا  کروانےوالے ہوں ۔۔۔ بگڑیاں بنانے ۔۔کھوٹیاں کھری۔۔ڈوبتیاں تارنے والے۔۔۔ خزانوں کی عطا کے" مالک" ہوں۔۔۔ یا اولاد دینے والے ۔۔۔ سب کی نفی کلیتا نفی!!


"لا الٰہ" نفی ہے ۔ ۔۔نفی ہے ہندوؤں کے 33 کروڑ خداؤں کی۔۔۔لا الٰہ نفی ہے۔۔۔ عیسائی تثلیث کے گورکھ دھندے کی۔۔۔عیسیٰ یا عزیرعلیھما السلام کو اللہ کا بیٹا ماننے کی۔۔۔ لاالٰہ نفی ہے ہر شرک کرنے والے کے شرک کی!لا الٰہ نفی ہے نظاموں کی خدائی کی۔۔۔ اور خود ان نظاموں کی عبادت کرنے والوں کی!۔۔۔ جمہوریت، کمیونزم ۔۔۔ ہزاروں "ازم"۔۔۔لاالٰہ کی تلوار کی زد میں  ۔۔۔ ان کی نفی ان دولفظوں میں پنہاں!نفی ۔۔۔۔۔نفس کو الٰہ کا درجہ دینے کی۔۔۔ خواہش کا بت پوجنے کی۔۔۔ اسے شتر بے مہار خود پر لاگو کیے رکھنے۔۔۔اور۔۔۔ لذات و شہوات کا اسیر ہونے کی!


ہر فانی کی خدائی کی نفی لاالٰہ  ۔۔۔ شمس و قمر ۔۔۔شجر و حجر ۔۔۔ دیوتاا وتار۔۔۔ پیر پیغمبر ۔۔۔ اولیاء شہداء۔۔۔ نظام و خواہشات  ۔۔۔ کسی کو خدائی کا کوئی بھی درجہ۔۔۔کسی بھی طرح دینا ۔۔۔ اعلانیہ ۔۔۔یا پھر۔۔۔ حیلوں بہانوں سے۔۔۔تاویلات کے سہارے۔۔۔سب رد ہے ۔۔۔۔   مردود ہے۔۔۔خودی ہے تیغ فساں لا الٰہ الا اللہ!!!

الا اللہ

نفی کے بعداثبات!۔۔۔بس اب ایک کو مان لینا۔۔۔انما اللہ الٰہ واحد۔۔۔ معبودتو صرف ایک اللہ ہی ہے!۔۔۔لائق عبادت۔۔۔آنسوؤں بھری دعاؤں سے ۔۔۔جبین نیاز کے سجدوں تک کا سزاوار۔۔۔آہ سحرگاہی سے ۔۔۔ مناجات نیم شب تک۔۔۔عبودیت کی ہر ادا۔۔۔ ایک ہی کے لیے مخصوص۔۔۔یہ ہے مقصود "الا اللہ" !!


مخلوق اس کی تو۔۔۔حکم بھی صرف اسی کا۔۔۔الٰہ وہ اکیلا تو۔۔۔دین بھی فقط اس کا۔۔۔رب العالمین وہ تو۔۔۔سربلندی کا سزاواراسی کا  جھنڈا۔۔۔رزاق وہ ہے ۔۔۔نظام اس کا۔۔۔یہ تقاضائے لا الٰہ ہے!!
مردوںکو زندگی ۔۔۔بگڑی کو سنوارنا۔۔۔خزانے بخش دینا۔۔اولاد یں عطا کرنا۔۔۔اس ایک کا اختیار۔۔۔ناقابل "تقسیم"اختیار!۔۔دلوں کے حال سے آگاہ۔۔۔دل میں خیال ۔۔۔آنے سے بھی پہلے۔۔۔اسے جاننے والا!۔۔۔سب کی سب دعائیں ۔۔۔التجائیں مناجاتیں ۔۔۔ہر وقت۔۔۔ہر زبان ۔۔۔ہر جگہ سے سننے والا"سمیع"!۔۔۔ہر چیز۔۔۔ہر جگہ پر۔۔۔ہر وقت۔۔۔اس کے سامنے ۔۔۔ہر کھلا چھپا۔۔۔اندھیرا جالا۔۔۔ایک برابر دیکھنے والا"بصیر"!


محبت اور مودت کی انتہا۔۔۔صرف اس کے لیے۔۔۔عبادت و اطاعت بس اسی کے لیے۔۔۔کن فیکون کا حامل۔۔ صرف وہ! اعظم و اکبر۔۔۔وہاب و غفار۔۔۔قہار و جبار۔۔صرف وہی۔۔۔وحدہ لا شریک ہے۔۔۔ذو الجلال والاکرم ہے !!
قائم ہے قیوم ہے۔۔۔کائنات کو قیام۔۔۔اسی کی مشیت پر۔۔۔اسی کے ارادے پر۔۔۔جب تک وہ ہے! صرف مخلوق کا نہیں۔۔۔انہیں عطا ہونے والی زندگی اور۔۔۔ آلینے والی موت کا بھی ۔۔۔خالق ہے!! قادر مطلق۔۔۔اسباب سے ماوراء۔۔۔ مثالوں سے کہیں برتر!!


حتمی فیصلہ کرنے والا۔۔۔زندگی موت کا فیصلہ۔۔۔اچھے برے حالات کا فیصلہ۔۔۔اعمال کی قبولیت کا۔۔۔رد کا فیصلہ۔۔۔الیہ یرجع الامر کلہ۔۔۔سارے معاملات اسی کی طرف تو لوٹائے جاتے ہیں !۔۔۔اسی بارگاہ میں فیصلے ۔۔۔اور ان کا نفاذ ۔۔۔کوئی نہیں جو۔۔۔ان فیصلوں کو چیلنج کرسکے۔۔۔اس کا فیصلہ سوائے انصاف کے ۔۔۔اور ہوتا بھی کیا ہے! جیسا "منصف" وہ ہے ۔۔۔اور کوئی نہیں !! اسرع الحاسبین بھی ہے ۔۔۔احکم الحاکمین بھی!!تیز ترین محاسبہ ۔۔۔ درست ترین فیصلہ کرنے والا!!!


لاالٰہ الا اللہ۔۔۔ کلمہ نہیں۔۔۔الفاظ نہیں ۔۔۔عقیدہ و منہاج ہے۔۔۔سلوک ہے طریق ہے! ۔۔۔طریق نبوی ۔۔۔ایک سوچ ہے ۔۔۔فکر و دعوت ہے۔۔۔ سوچ و  فکرکی دنیاسے۔۔۔عالم رنگ و بوتک۔۔۔ایک تبدیلی۔۔۔دل و دماغ سے ۔۔۔قلب و نظر سے۔۔۔کار حکومت۔۔۔ایوان اقتدار تک۔۔۔ایک انقلابی دعوت!!لاالٰہ الا اللہ۔۔۔ ایک "قول ثابت"۔۔۔جو اس کو پا گیااس کو سمو گیا۔۔۔اس میں ڈھل گیا۔۔۔اس کے لیےصراط مستقیم سے ۔۔۔پل صراط تک۔۔۔خدا کا ساتھ ۔۔۔بشارتیں اور کامیابیاں۔۔۔تب "محمدرسول اللہ" کو سمجھنا بھی۔۔۔کوئی مشکل نہیں۔۔۔اور قدم قدم پر ۔۔۔راہ تکتی۔۔۔سلام کرتی  منزل بھی دور نہیں!!

07/06/2013


بدھ، 8 مئی، 2013

یہ دکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے !


پچھلے دنوں ایک معتبر ترین عالم دین کا الیکشن کی "قباحتوں " پر بیان پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ جس میں امیدواروں کو خوف خدا کے ساتھ دیانتدارانہ انتخابی مہم، مخالفین پر بے جا الزام تراشی سے گریز ، جھوٹ اور چغلی وغیرہ کے سدباب ، اسراف اور تبذیر سے گریز کرتے ہوئے ایمان دارانہ انداز میں سارے انتخابی عمل کو بحسن و خوبی انجام دینے کی تلقین کی گئی ہے، اور اس کے نتیجے میں ممکنہ رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا مژدا بھی سنایا گیا۔ مثلا ایک اچھی قیادت کا انتخاب اور قوم و وطن کی بھلائی اور خیر خواہی وغیرہ۔

فرزندان مدارس و مساجد پر ہی کیا موقوف، جدید تعلیم یافتہ اور ماڈرن اسلامسٹ کہلانے والے بھی دونوں ہی آج یہ بات باتکرار کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ووٹ ایک امانت ہے اور اس امانت کو ایسے استعمال کریں کہ ایک امانت دار اور "صالح" قیادت سامنے آئے ، وغیرہ وغیرہ۔

ایسے تمام لوگ معاملے کی صرف اس سطح کو دیکھتے ہیں ، یا دیکھنا چاہتے ہیں جو گلیاں سڑکیں بنانے ، ترقیاتی اور مفاد عامہ کے کاموں سے متعلق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سطح کو یا تو سمجھتے ہی نہیں ہیں ، یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے پس پشت ڈال دیتے ہیں جس کا تعلق ان "عوامی نمائندوں" کے اللہ کے مقابلے میں ایک الگ ہی دین و شریعت گھڑنے اور خدا کی مخلوق پر نافذ کرنے سے ہے۔

پھر یہ شریعت سازی ہوتی کیوں ہے، اس پر بھی غور نہیں کرتے شاید ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شریعت اس لیے معرض وجود میں نہیں لائی جاتی کہ قرآن کی طرح طاقوں میں سجا اور آنکھوں سے لگا کر اس کا حق ادا کر دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شریعت تو عدالتوں میں فی الفور نافذ ہوتی ہے اور عدالتیں از روئے ایت قرآنی ""واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل"" "دلیل" لیتے ہوئے خدائی انصاف کی بجائے اس انسانی وضع کردہ دین کو انصاف کی صورت میں نافذ کر دیتی ہیں !!!

عوام کالانعام ان عدالتوں میں وہ "حق" لینے جاتے ہیں جو ان کو حق کی پڑیا میں باطل بنا کر دیا جاتا ہے اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی (( اگر غلطی سے "حق" مل جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ وہ بھی نہیں!! ))

تب یہ جدید پارلیمانی دین اور اس کے نئے سے نئے ایڈیشن گاہے بگاہے نظر ثانی سے گزرتے ہیں اور "قانون نافذ کرنے والے ادارے" ان کی بنا پر زمین کو "عدل و انصاف" سے بھر دیتے ہیں !!

یوں "امانتوں کے لوٹائے جانے" کا وہ عمل جو مفتیان شرع متین اور زعمائے تحریکات اسلامیہ کے ہاں سے دستار فضیلت پا کر بابرکت انداز میں شروع ہوا تھا، اب عمل کی دنیا میں اگلے پانچ سال تک ایک خاص خطہ زمین پر خدا کی خدائی کو 300 ان پڑھ/ نیم پڑھے لکھوں میں خوشی خوشی بانٹ بھی دیتا ہے اور یہ عین منشائے فطرت اور تقاضائے شریعت بھی قرار پاتا ہے!!

کاش یہ لوگ غور کر لیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 60 سال بعد ہی سوچ لیں کہ عملا تو اس جمہوریت خبیثہ نے ہمیں کیا دینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو نقصان اس قومی سطح کے شرک سے ہم اپنی آخرت کا کر چکے ہیں اور کرتے جا رہے ہیں وہ کتنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا ہی بڑا ہے !
کیونکہ دنیا کا رونا کوئی نہین ہے ، اصحاب الاخدود بھی جلا دیے گئے تھے اور پیغمبر تک بے دردی سے شہید کر دیے گئے تھے لیکن ان کی کامیابی و کامرانی کے قصیدے آج بھی قرآں میں موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کتنے ہی دنیا میں عیش کرنے والوں کے عذاب کی دردناکی ہے جس کا تصور ہی رلا دیتا ہے !!کاش ہمارے علماء اس پہلو پر قوم کی موجودہ زندگی سے آگے بڑھ کر اخروی زندگی پر بھی سوچ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دور حاضر کے اس صنم اکبر کا "حق" تو یہ بنتا ہے کہ ہر سطح پر اس کی حقیقت کو ایسے واشگاف الفاظ اور انداز میں کھولا جائے جیسے کسی دور میں قادیانیوں کی حقیقت اور ان کے کفر سے آگاہ کیا گیا تھا ، حتٰی کہ اب مسلمانوں کے کسی دور دراز گاؤں کا بچہ بھی کسی دلائل و براہین قاطعہ کی سمجھ بوجھ سے عاری ہونے کے باوجود قادیانیوں کے کفر اور ان کے گندے موقف کے خلاف ایستادہ چٹان کا کردار ادا کرتا ہے۔

کفر کا اہل ایمان پر یہی "حق" ہوتا ہے کہ وہ اس سے انکار کریں! اور جتنا جس کسی کا حلقہ اثر ہے وہ اس انکار کا دائرہ بھی اتنا ہی وسیع کر دے۔ غلبہ کفر کا مطلب بھی یہ نہیں ہوتا کہ اب کفر سے سمجھوتوں کی سوچنی شروع کر دی جائے کہ یہ تو جانے والانہیں ہے ہمیں ہی کچھ "لچک" لانی چاہیے!!

انبیاء و رسل کے ادوار میں کفر کا غلبہ کتنا واضح نظر آتا ہے ، کچھ کو حکومت نصیب ہوئی تو اکثر کو نہیں ۔ لیکن انہوں نے کفر کو اسی سطح پر دیکھاا ور لوگوں کو دکھایا جو خدا کی خدائی کے متصادم ہونے کا درجہ ہے ۔
کفر کے کسی بھی "اچھے " یا "نرم خو" میٹھے میٹھے پہلو کو سامنے کر کے لوگوں کو اسی نظام میں ساجھے داری کا درس نہیں دیا ۔ یہ توحید ہے اور یہی توحید کا تقاضا ہے کہ جب تک اصل الاصول پر لڑائی ہے تب تک بھلے 1001 "مشترکات نما" چیزیں ہی کیوں نہ پائی جائیں وہ ہمارا سبجیکٹ ہی نہیں ہیں !! ہاں خدا کی خدائی کو مانو تو دیکھیں گے!

الیکشن کے تازہ فسانے میں ہمیں ہر رنگ نظر آتا ہے، سیکولرز اور لبرلز کتنے ہی فلیورز اور لیولز میں ہوں وہ اس بات پر متفق و متحد ہیں کہ حاکمیت کو خدا کے لیے خاص نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہیں۔

اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ آئین میں "یہ" لکھ دیا گیا ہے اور قانون "وہ" بن گیا ہے اس لیے اب کچھ نہیں ہو سکتا !، اس کی صرف اور صرف وجہ یہ ہے کہ خود اہل اسلام کے علماء اور "فقہاء" اس بارے میں درجہ اول سے نیچے آ چکے ہیں۔ وہ اس بنیادی فرق کو نظر انداز کرنے پر تیار ہی نہیں عملا قائل وفاعل ہو چکے ہیں جس بنیادی فرق کی خاطر بلال اور خباب نے مکہ کی گلیوں کو خوں رنگ کیا تو حنین اور خیبر کے معرکے لڑے گئے۔

اسلامی حلقے اس کرنے کے کام پر کمربستہ تو ہو کردیکھیں، پھر دیکھتے ہیں کہ انسانوں پر انسانوں کی خدائی کو کس طرح مزید چلایا جا سکتا ہے!!، اور جب آگہی ہی نہیں دی جائیگی تو کیسے شعور آئے گا اور کیسے اس نظام کو بدلنے کی سوچ اور کہاں جا کر نظام کا تلپٹ ہونا اور پھر خلافت کا قیام !!! خیال است ومحال است و جنوں، کم از کم یہ تھوڑا تھوڑا کر کے "کفر کی قبولیت" والا طرز عمل تو یہی ہی ثابت کر رہا ہے۔


فرق کچھ نہیں ، صرف لات و منات کے چولے بدلنے کا عمل وقوع پذیر ہو اہے اور ہم حق سے کچھ کم پر نہیں بہت کچھ کم پر راضی ہو چکے ہیں!!
اسی لیے ہماری حالت نہیں بدلتی اور اسی لیے ہم پر آسمان سے برکتوں کے در وا نہیں ہوتے ۔

لیکن افسوس یہ ہے کہ اس سارے منظر نامے میں ہمیں اگر کوئی رنگ نظر نہیں آتا، کوئی صدا سنائی نہیں دیتی تو وہ حاکمیت جمہور کا یہ بڑا اکھاڑہ سجنے وقت انہیں احکم الحاکمین کی خالص حاکمیت کی طرف بلایا جائے، پکارا جائے، یا قومنا اجیبوا داعی اللہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے قوم اللہ کے منادی کی پکار سن لو! کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ بتائیں کہ جمہوریت شرک ہے تو کیسے؟ حاکمیت الٰہی کیا ہوتی ہے؟؟ اور نظام باطل اللہ کا حق بندوں کو کیسے تفویض کرنے کی کوشش کرتا ہے ؟؟ اور اب تک اس سب کچھ کے اجتماعی ثمرات کیا ہیں؟؟ اگردنیاوی ثمرات ایک لاکھ ہوں تو بھی کس قیمت پر ہیں !!

یہ دکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے
ملال یہ ہے کہ اب صبح کی طلب بھی نہیں

ہفتہ، 13 اپریل، 2013

آئین کی تشریح اور نفاذ اسلام



     کسی بھی مسودہ میں الفاظ کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی اہمیت بھی مسلمہ ہوتی ہے جو ان عبارات کی تشریح کا حق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید ریاستوں میں دستور کی تدوین کرتے ہوئے ایک ایک لفظ پر بار بار نظر ثانی کی جاتی ہے تاکہ آئین کی روح سے بات کسی بھی طرح باہر نہ جانے پائے۔


    آج کل باسٹھ تریسٹھ پر گرما گرم بحث کے بعدالیکشن ہونے جا رہے ہیں، چنانچہ جمہوریت اور اسلام  کی بحث ایک بار پھر سے تازہ ہو گئی ہے۔ آئین پاکستان ایک ایسی دستاویز ہے جس میں سیکولرز اور اسلام پسند دونوں اپنا اپنا حصہ رکھتے ہیں۔ ان ہی دونوں طبقوں کے اتفاق سے یہ آئین وجود میں‌آیا اور دونوں ہی مختلف تعبیرات اور تشریحات کی صورت میں پاکستان کی صورت گری کے  یکسر مختلف وژن رکھتے ہیں۔ اسلام پسند حاکمیت اعلیٰ اور خلاف قرآن و سنت کوئی قانون نہ بنائے جانے کی بات آئین سے نکالتے ہیں بلکہ تو اسے ماتھے کا جھومر بتاتے ہیں تو سیکولر حضرات عدل اجتماعی اور جمہوری ریاست اور ایسی ہی شقوں کے ساتھ مغربی تشریح کو لف کر کے قیام پاکستان کا اصل مدعا ایک ایسی ریاست کو قرار دیتے ہیں جس میں مذہب کا ریاستی سطح پر کوئی عمل دخل نہ ہو گا۔


    عملا کیا صورتحال ہے ؟ِ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسلام اگر تھوڑا بہت آئین میں ہے بھی تو حکومتی سطح پرعمل میں بالکل نہیں۔ وجہ کیا ہے؟؟ عام طور پر حکمرانوں کی "عملی کوتاہیوں" اور بد نیتی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور بات ختم۔ 

     آئیے اس تلخ حقیقت کے اسباب کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں۔


    یہ کافی معرکۃ الآراء بحث ہے کہ آئین کی تشریح کا حق کسے حاصل ہے؟ عدلیہ اور پارلیمنٹ  دونوں ہی اس کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہم فی الوقت دونوں ہی کو اس بارے میں مجاز مانتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں ادارے کس طریقہ کار سے ائین کی ممکنہ تشریح کا حق رکھنے والے اپنے ارکان کو اوپر لاتے ہیں۔


    عدلیہ کے جج صاحبان درحقیقت وکلاء ہوتے ہیں جو لاء کالجوں میں انگریزی قانون کی دفعات پڑھتے پڑھاتے ہیں اور ایک دن ججی کا امتحان پاس کر کے تقدس کی کرسی پر متمکن ہو کر "فاضل جج" ہونے کی سند پاتے ہیں۔ اب ایل ایل بی کا کورس ہو یا مزید ایل ایل ایم وغیرہ کی ڈگریاں ہوں، ان میں اسلام کا عنصر آٹے میں نمک برابر بھی شاید نہیں ہوتا۔اسی امتحانی طریق کار سے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز اوپر آتے ہیں اور آئین کی تشریح و تعبیر کے مجاز ٹھہرتے ہیں۔ 


    رہے پارلیمنٹ کے ارکان جن ان کا طریق انتخاب سب کے علم میں ہے،ان کے لیے اگر ہم آئیڈیل صوررت بھی تصور فرما لیں تب بھی ایک اچھا انسان، مسلمان، صادق و امین اور اسلام کے نظریے کے خلاف نہ چلنے والے اشخاص پارلیمنٹ میں آئیں گے، اسلام اور آئین کی اس کے مطابق تشریح کی اہلیت پھر بھی بہت دور کی بات ہے۔


    اب دونوں اداروں کے طریقہ کار اور ارکان کی اہلیت کے معیار کا خوردبینی مطالعہ کرنے سے بھی وہ وہ "چیزیں" برآمد نہیں ہو سکتیں جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکیں کہ یہ لوگ "اسلامی تشریح" کے اہل قرار پاتے ہیں۔


    لے دے کے ایک فیڈرل شریعت کورٹ نامی تنکے کا سہارا بچتا ہے جس کے ججز نے گورا اور  سلامی قانون دونوں پڑھے ہوتے ہیں لیکن اس کی اتھارٹی بھی "ناقابل یقین" ہے! اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سود کو قانونا ناجائز قرار دینے میں اس کی بے بسی سب کے سامنے رہی ہے۔ سپریم کورٹ از آل ویز سپریم!۔

     چنانچہ آئین کی پیشانی پر موٹے مارکر سے چسپاں ایک جملہ، ابتدائیے میں ایک یادداشت نما  قراردار اور پارلیمنٹ کی پر جلی حروف میں لاالٰہ الا اللہ لکھ کر دوسری طرف مقتدر اداروں تک رسائی اور اہلیت کا طریقہ کار ہی ایسا ڈیزائن فرما دیا گیا کہ اسلامی تشریح تو درکنار "مسلمانی تشریح" بھی نہ ہو سکے !! مکرر یاد رہے کہ یہ تشریح وہ گیدڑ سنگھی ہے جس نے نافذ ہونا ہے ، بلکہ جس کے مطابق آئین نافذ  ہے، اور سب کے سامنے ہے کہ کیسا نافذ ہے!۔!


     کراس چیک کے لیے پارلیمنٹ کو رہنے دیں کہ اس پر کافی بات ہوتی رہتی ہے، صرف اس امر پر نظر ڈالنا کافی ہو گا کہ اسلامی معاشرے کے وہ راہنما اصول جو آئین میں لکھے گئے ہیں یا تشریح طلب ہیں، ان کے کما حقہ نفاذ کے لیے آج تک عدلیہ نے کیا سرگرمی دکھائی ہے؟؟ وہ عدلیہ جو ہر ایرے غیرے کلازز اور شقوں میں جا گھستی ہے اور وہاں سے نادر روزگار تشریحات برامد کرتی نظر آتی ہے۔۔۔ یہاں اس کے کان اور آنکھیں کلر بلائنڈ کیوں ہیں؟ بھئی جب بنیاد ہی غلط ڈالی جائے گی تو دیوار کیسے سیدھی ہو گی!!18 ، 20 سال گورا قانون پڑھنے پڑھانے اور اسی کی گتھیاں سلجھانے والی قانونی تشریحی نظر آخر کیسے خدا رسول کی منشا کے مطابق آئین کی تشریح کر سکتی ہے؟؟

      سو میرے عزیز ہم وطنو ! اسلامی پاکستان کی داغ بیل عملا تب تک نہیں ڈل سکتی جب تک کہ وہ طریقہ کار نہ ہو جس کے تحت عملاً اسلامی ہونے کی طرف سفر کیا جا سکے۔ ورنہ لاہور کے رستے پر بگٹٹ بھاگنا مخلص اور نیک نیت ہونے کے باوجود آپ کو پشاور نہیں پہنچا سکتا۔  
    پہلی مرتبہ ہم 5 سال پورے کر کے جمہوریت کی بنیاد مضبوط کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ "اسلامی" ہونے کی بیل کب منڈھے چڑھے گی ۔ واللہ اعلم بالصواب۔

     الغرض مجالس عوام ہوں یا عدلیہ کے مقتدر طبقے، ہر دونوں کی تشکیل اس نہج پر متعین کر   رکھی گئی ہے کہ  صدائے لا الٰہ الا اللہ کا گلا گھونٹنے کا پورا پورا اہتمام ہے!!۔ اس ساری صورتحال میں اب جبکہ الیکشن سر پر ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا عملا اسلام کے نفاذ کی اس نظام کے ذریعے کوئی گنجائش کوئی معمولی سا رخنہ بھی چھوڑا گیا ہے؟؟ جہاں سے اسلامی نظام کا "مبینہ" جن نقب لگا کر اس نظام کی بوتل سے باہر آ اجائے؟؟ یا نو من کا تیل اکٹھے کرتے کرتے ہی قومی زندگی اور اسلامی جماعتوں کے مزید پچاس ساٹھ برس گزر جائیں گے؟؟؟

       سبھی جانتے ہیں کہ فقہی اختلافات کو چھوڑ کر 90 فیصد چیزیں اتفاقی ہیں, ان کو تو اختلاف چھو کر بھی نہیں گذرا، پھر ان کا نفاذ نہ کرنا چہ معنے دارد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ "یہ معنے دارد" کہ ملا صاحبان کو ویٹی کن سٹی میں خلعت فاخرہ بخش کر عیسائیت کو اس کی روح کے ساتھ پیش کرنے کی توقع رکھنا جتنا مضحکہ خیز ہے اس سے کہیں زیادہ "بی اے" پاس یا "گورا قانون" میں زندگی کی صبح شام کرنے والے ارکان پارلیمان و عدلیہ سے آئین کو اسلامی تقاضوں کے مطابق نافذ کرنے کی توقع ہے!۔
    

بدھ، 27 مارچ، 2013

ڈیڈی! دہشت گرد کسے کہتے ہیں؟


))ڈیوڈ کیمبل کا یہ مکالمہ کچھ دیرینہ دوہرے معیاروں کو بڑی بے ساختگی کے ساتھ بے نقاب کرتا ہے ،
 اردو ترجمہ از قلم محترم صلاح الدین اولکھ ((

بیٹا: ڈیڈی دہشت گرد کسے کہتے ہیں؟

باپ: بیٹا آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق دہشت گرد ایک ایسے شخص کو کہتے ہیں جو سیاسی عزائم کے حصول کے لیے تشدد اور دھونس کا استعمال کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ دہشت گرد بہت برے مرد اور خواتین ہوتے ہیں جو ہم جیسے عام لوگوں کو نہ صرف خوفزدہ کرتے ہیں بلکہ کبھی کبھار قتل بھی کر دیتے ہیں۔

بیٹا: دہشت گرد عام لوگوں کو قتل کیوں کرتے ہیں؟

باپ: کیونکہ دہشت گرد عام لوگوں یا ان کے ملک سے نفرت کرتے ہیں، اس کی وضاحت کچھ مشکل ہے،بس کچھ چیزیں ایسی ہی ہیں، ہماری دنیا میں بہت سے لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر نفرت سے بھرے پڑے ہیں۔ بالکل عراقیوں کی طرح جو ہمارے لوگوں کو اغوا کر کے قید کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ اگر تمام اتحادی فوجیں عراق سے نہ نکلیں تو مغویوں کو قتل کر دیا جائے گا.

یہ ایک برا حربہ ہے جسے بلیک میلنگ کہتے ہیں، معصوم لوگوں کو اغوا کر کے دہشت گرد مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر مغربی حکومتوں نے ان کی بات نہ مانی تو وہ مغویوں کو قتل کر دیں گے.

بیٹا: جب ہم نے عراق پر حملہ کر کے معصوم لوگوں کو قتل کیا جو کہ بتا نہیں رہے تھے کہ ان کے تباہی پھیلانے والے ہتھیار کہاں ہیں تو یہ بھی بلیک میلنگ ہی تھی نا!

باپ: نہیں .... اچھا، ہاں ایک طرح سے کہہ سکتے ہو لیکن وہ الٹی میٹم تھا، تم اسے مثبت بلیک میلنگ کہہ سکتے ہو.

بیٹا: مثبت بلیک میلنگ؟ وہ کیا ہوتی ہے؟

باپ: مثبت بلیک میلنگ وہ ہوتی ہے جب کسی کو اچھے مقصد کے لیے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے. عراقی ہتھیار بہت خطرناک تھے اور ان سے پوری دنیا میں بہت سے لوگوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا. اس لیے ان کو تلاش کرنا اور تباہ کرنا بہت ضروری تھا.

بیٹا: لیکن دیڈی وہاں تو ہتھیار سرے سے تھے ہی نہیں !

باپ: ہاں یہ سچ ہے لیکن یہ ہمیں اب پتہ چلا ہے حملے کے وقت پتہ نہیں تھا. ہمارا خیال تھا کہ عراق میں ہتھیار موجود تھے.

بیٹا: تو کیا عراق میں اتنے سارے معصوم لوگوں کا قتل عام ایک غلطی ہے؟

باپ: نہیں یہ غلطی نہیں ، بس وہ ایک سانحہ تھا لیکن ہم نے بہت سی زندگیاں بچائی ہیں، تم دیکھو ہم نے بہت سے عراقیوں کو ایک ظالم شخص صدام حسین کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا لیا. صدام حسین اگر برسر اقتدار رہتا تو بہت سے عراقی شہریوں کے قتل کا حکم دے دیتا اور یقینا بہت سے لوگ قتل یا زخمی ہو جاتے. ان میں ماں باپ بھی شامل ہوتے اور بچے بھی.

بیٹا: بالکل اسی عراقی بچے کی طرح جو میں نے ٹی وی پر دیکھا تھا جس کے بازو بم دھماکے میں اڑ گئے تھے؟

باپ: ہاں بالکل اسی بچے کی طرح.

بیٹا:لیکن وہ بم تو ہم نے پھینکا تھا، اس کا مطلب ہے ہمارے رہنما دہشت گرد ہیں؟

باپ: اوہ میرے خدایا! تمہیں یہ خیال بھی کیسے آگیا؟وہ صرف ایک حادثہ تھا،بدقسمتی سے جنگ میں عام لوگ زخمی ہو ہی جاتے ہیں،اگر تم شہر پر بم گراؤ گے تو لوگوں کے زخمی ہونے کے علاوہ کیا توقع رکھ سکتے ہو.کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ایسا ہو، لیکن یوں ہو ہی جاتا ہے.

بیٹا: تو کیا جنگ میں صرف فوجیوں اور سپاہیوں کو قتل کیا جاتاہے؟

باپ: ہاں سپاہیوں کو اپنے ملک کے لیے لڑنا سکھایا جاتا ہے،یہ ان کی ذمہ داری ہے ، وہ بہادر ہوتے ہیں،وہ جانتے ہیں کہ جنگ خطرناک ہوتی ہے اور وہ مارے بھی جا سکتے ہیں کیونکہ جونہی وہ وردی پہنتے ہیں وہ دشمنوں کا ہدف بن جاتے ہیں۔

بیٹا: دہشت گرد کون سی وردی پہنتے ہیں؟دیڈی کیا جنگ کے بھی قوانین ہوتے ہیں؟

باپ: ہاں کیوں نہیں، سپاہیوں کو وردی لازمی پہننی چاہیے اور آپ اچانک ہی کسی پر حملہ نہیں کر سکتے جب تک کوئی پہلے آپ پر حملہ نہ کرے،پھر آپ اپنا دفاع کر سکتےہیں۔

بیٹا: تو کیا اسی لیے ہم نے عراق پر حملہ کیا تھا، کیونکہ عراق نے پہلے ہم پر حملہ کیاتھا اور کیا ہم اپنا دفاع کر رہے تھے؟

باپ: بالکل نہیں، عراق نے ہم پر حملہ نہیں کیا تھا، لیکن وہ ایسا کر سکتے تھےاس لیے ہم نے حملے میں پہل کی، کیونکہ عراق بڑے پیمانے پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار چلا سکتا تھا۔

بیٹا: وہ ہتھیار جو ان کے پاس تھے ہی نہیں! تو کیا ہم نے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی؟

باپ: اصولی طور پر تو یہ جنگی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی لیکن۔ ۔ ۔ 

بیٹا: اگر ہم نے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی تو پھر عراقی لوگ جنہوں نے وردی نہیں پہنی ان کو قوانین کی خلاف ورزی کی اجازت کیوں نہیں ؟

باپ: یہ بالکل الگ معاملہ ہے ، ہم نے قوانین کی خلاف ورزی کر کے بالکل صحیح کیا۔

بیٹا: لیکن ڈیڈی ہمیں یہ کس طرح پتہ چلا کہ ہم قوانین کی خلاف ورزی کر کے بھی درست تھے؟

باپ: ہمارے رہنماوں جارج بش، ٹونی بلیئر اور ہاورڈ نے ہمیں بتایا کہ پہلے حملہ کرنا درست فیصلہ تھا۔ اگر وہ نہیں جانتے کہ صحیح کیا ہے تو پھر کسے پتہ ہو گا؟ انہوں نے کہا تھا کہ عراق کو ایک بہتر ملک بنانے کے لیے کچھ کرنا ہو گا۔

بیٹا: تو کیا اب عراق پہلے سے بہتر ملک ہے؟

باپ: میرا خیال ہے بہترہے لیکن یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا،معصوم مغربی لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور اغوا کی وارداتیں تو خوفناک ہیں۔ مجھے ان معصوم مغویوں کے خاندانوں سے بہت ہمدردی ہے۔ لیکن ہم دہشت گردوں کے آگے ہتھیار تو نہیں ڈال سکتے۔ ہمیں ان کو مضبوطی سے کچلنا ہو گا۔

بیٹا: اگر مجھے دہشت گرد قید کر لیں تو آپ کیا کہیں گے؟

باپ: اوہ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ یہ بہت خوفناک اور مشکل بات ہے۔

بیٹا: تو کیا آپ مجھے مرنے کے لیے چھوڑ دیں گے؟ آپ مجھے سے پیار نہیں کرتے؟

باپ: کیوں نہیں مجھے تم سے شدید محبت ہے ، یہ بہت مشکل سوال ہے اور میں نہیں جانتا کہ اگر ایسا ہوا تو میں کیا کروں گا۔

بیٹا: اچھا اگر کوئی ہم پر حملہ کرے ہمارے گھر کو بم سے اڑا دےا ور آپ کو ممی اور جینی کو مار دے تو میں جانتا ہوں کہ میں کیا کروں گا۔

باپ: بیٹا کیا کرو گے تم؟

بیٹا: میں یہ پتہ کروں گا کہ ایسا کس نے کیا ہے اور ان کو قتل کر دوں گا، ان سے ساری زندگی نفرت کروں گا، جہاز اڑاؤں گا اور ان کے شہروں پر بمباری کر کے تباہ کر دوں گا۔

باپ: لیکن اس طرح تو بہت سے معصوم لوگ مارے جائیں گے؟

بیٹا: میں جانتا ہوں لیکن یہ جنگ ہے ڈیڈی! اور یاد رکھیے جنگ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ 

اتوار، 3 مارچ، 2013

کچن میں پڑنا


تو صاحبان عدل و انصاف، یہ ان دنوں کی بات ہے جب "انقلاب پاکستان " متعدد کوسٹروں اور ایک لش پش لینڈ کروزر کی قیادت میں لاہور سے روانہ ہو چکا تھا۔ہوا کچھ یوں کہ اسی دن مام ڈیڈ ایک وفات کی وجہ سے سرگودھے جانے پر مجبور ہو گئے اور ہمیں اس شہر بے اماں میں اکیلا چھوڑ گئے، اب ہم تھے اور ہماری تنہائی۔  ان تین دنوں میں یا تو چوکوری ابلاغی ڈبہ تھا یا پھر کچن! کچن اس لیے کہ حلق کو سیراب اور پیٹ کو شاداب کیے بغیرکچھ بھی ہرا ہرا نہیں لگتا ، پاک نیٹ بھی نہیں۔فیس بک تو ویسے ہی نیلی ہے۔


          یاد نہیں کبھی کچنی مصنوعات بارے سوچا بھی ہو، بس چائے بنانا اپنی دانست میں آتی تھی (ہے!) اور توس سینکائی سے جیم لگائی تک اپنے کچنی تصرفات ختم ہو جاتے ہیں ، جیسا کہ اکثر مرد حضرات اپنی سرشت میں بقول خواتین کے "نان کوا آپریٹو" واقع ہوتے ہیں اور ہم نے تووہ کیا کہتے ہیں  ابھی شادی وادی بھی نہیں بنائی ۔  خیر ان تین دنوں میں یہ عجیب سا رجحان جسے ضرورت ایجاد کی ماں کا نام بھی دیا جا سکت ہے اور ہڈ حرامی کے اعلیٰ درجات پر فائز ہونے کی "پاداش" بھی جہا جا سکتا ہے(( اب کوئی سگھڑ پن نہ کہہ دے:ڈڈ)) ۔۔۔۔۔ کہ ہم جیسے خانہ خراب کی توجہ کچن کا خانہ خراب کرنے کی طرف ہو گئی۔ ہاں تو اور کیا!اب کون روز بریڈ اور انڈے یا نان چنے یا حلوہ پوری یا فلاں فلاں لے کر آئے اور اگلی بھوک پر فیر ایہی کشٹ! کیوں نا کچن میں طبع آزمائی کی جائے ((اگرچہ بعد میں یہ زورآزمائی ثابت ہوئی))۔


          صبح صبح ( میر امطلب کم از  11 بجے کے بعد )اٹھ کر اور کچھ نہ سوجھا تو دو عدد نان بلےکے تندور سے لانے کے بعد چائے بنانے کی سوجھی۔ شاید اس جذبہ عمل کا محرک یہ تھا کہ چائے برائے فروخت تو ہوتی ہے برائے پارسل نہیں دیکھی گئی۔ایک حل یہ بھی ہو سکتا تھا کہ نان لے کر کسی ہوٹل کی راہ لی جاتی ، اللہ اللہ خیر سلا۔ لیکن اب تو گھر تشریف آور ہو چکے تھے اور ایک دفعہ گھرآنے کے بعد دوبارہ صرف "اتی" سی بات کے لیے ہوٹل ایک دشوار گزار سا کام لگتا ہے۔ چائےازمنہ وسطی میں  پہلی دفعہ نانا جی کی فرمائش پہ رات کے کسی ایسے ہی پہر بنائی تھی جب وہ سو کر اٹھ گئے تھے اور ہم کسی نسیم حجازی ناول کا اخیر کرنے کو تھے، باقی سب تو ٹھیک رہا تھا لیکن پتی "قدرے" زیادہ ہو گئی اور پھر جب نانا جی کے ساتھ خود بھی اسے نوش جان فرمایا تو ۔۔۔۔ خیر جناب صبح کا مینیو یہی طے کیا کہ آسان کام ہےاور کافی عرصے بعد ٹرائی کی لیکن چائے گزارے لائق بن گئی اور پسند کی گئی اسی نےآگے چل کر  مطبخانہ عزائم کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔


دوپہرکو فریج سے ایک آدھ چیز برآمد ہو گئی اوررات آئی تو  موت کا پیغام آ گیا۔ میرا مطلب رات تنی دیر کر دی حسب معمول کہ جب آنتیں ایسے ایک دوسرے کو کاٹنے لگیں جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے تواب اماں تو ہیں  نہیں جو کہیں "پتر کی کھانا اے" .۔۔۔ ہائے ! مائے نی میں کنوں آکھاں ۔ خیر رات کو فریج سے کچھ چاول برآمد ہو گئے اور اوون کام آگیا۔ 


صبح آملیٹ بنانے کی کوشش کی گئی ، انڈہ پھینٹ کر مرچیں دھونکیں اور نمک ڈال کر سارا ملیدہ اوپر چولہے کے ۔۔۔۔یہی ترکیب اگلی صبح جب میٹھا انڈہ بنانے کے لیے آزمائی تو منہ کی کھائی ۔ توے پر میٹھا انڈہ بنانے کے چکر میں اور پھر مزید "لذیذ" بنانے کے لیے اس میں ملائی بھی ڈال دی اور اسے "پکنے دیا" کہ کچا نہ رہ جائے اور بدمزہ معلوام نہ ہو۔وہ تو جب انڈے بیچارے نے "سی سی" شروع کی تو دیکھا کہ "برننگ انجری" واقع ہو رہی تھی!  اتارتے اتارتے کوئی 40 فیصد انڈا ، انڈا کم اور کباب کا منظر زیادہ پیش کر رہا تھا۔ بہرحال بندے نے کھایااور اس معرکے پر پھولا نہ سمایا۔


دوپہرکو اس طرح ناغہ ہوا کہ صبح دوپہر کا اکٹھا "ناشتہ کم لنچ" کیا تھا اور شام کو نظر تھی شامی کباب پر! جی آمیزہ تیار تھااور ہمیں بزعم خود اس کے بنانے کی ترکیب بھی  آتی تھی  ۔یہ ترکیب جب لڑا کر "لذیذاور خستہ"  شامی کھا کر خوش بھی ہو لیے تو اماں کا فون آیا، بڑے فخر سے کارگزاری بیان کی کہ خو پکاکر کھا رہا ہوں ۔۔۔۔ "ذرا مجھے بھی تو بتا کیا بنایا ہے "۔اب جو ترکیب بیان کی ہے تو "لیکن اماں وہ کچھ کچھ کچے لگ رہے تھے"  ۔ " انہیں آئل میں تلانہیں تھاکیا؟"، "نہیں بس انڈے میں ٹکیاں ڈال کر توے پر تل لی تھیں " :ڈڈ۔۔۔۔"آئل میں تلتے ہیں بےوقوف! توے کا بھی ناس مار دیا ہو گا"،  بس اس کے بعد کئی دفعہ حلیم مصالحہ کی ڈبیا پر لکھی ترکیب دیکھ کر سوچتا رہا ہوں حلیم بنانا سیکھ لوں اماں سے ،اور سیکھ بھی لوں  لیکن موقع بموقع تبصروں کو ہضم کرنا اپنے بس کی بات نہیں ہے بابا!!

جمعرات، 14 فروری، 2013

دو منظر ایک سٹیٹس


بلاگ پوسٹ صادر ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا ( ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے تو بالکل بھی نہیں)، پھر مزید" افاقہ" تب ہوا جب کئی احباب نے ہمیں تاریخ ویلنٹائن ایک بار پھر سے ازسرنو ازبر کروا کےشکریے کا موقع دے دیا۔ مسئلہ لیکن دو عدد مناظر اور ایک عدد فیس بکی سٹیٹس سے ہوا جن کا ذکر آگے آئے گا۔ ابتدا میں البتہ یہ ذکر برمحل ہو گا کہ سارا سوشل میڈیا کل رات سے آج رات تک عید محبت کی حقیقت کھول کھول کر بیان کرنے کی محنت شاقہ میں مصروف ہے، مضامین سے لیکر پوسٹرز اور تصاویر سے لیکر سلوگن اور جانے کیا کیا کچھ۔ سب اس کو برا سمجھتے ہیں ،آزادانہ اختلاط کو جائز کوئی بھی نہیں رکھتا،اگرچہ دروغ برگردن راوی آج ایک محترمہ نےکسی ٹی وی چینل پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ سے شادی کو یوم محبت کی دلیل بنانے کی کوشش فرما بھی دی ہے لیکن بہرحال یہ استثنائی "کیفیات"  ہیں ،عموما ابھی تک  خود اس میں گٹوں گوڈوں تک ڈوبےمنڈے کھنڈے یا  احباب و اصحاب بھی اسلام کو بہرحال اپنے طرز عمل کے لیے زحمت نہیں دیتے۔

         
          میں نے آپ نے  بھی شاید ہی کسی دن خاص اس دن کی نسبت سے کوئی تقریر وعظ وغیرہ سنا ہو کسی ملا ملانے کا،  لیکن بنیادی اقدار اور اخلاقیات ایسی "چیزیں" اور پھر اسلامی اخلاقیات (عرف "خاص" میں غیرت برگیڈ) ،یہ سب ہمیں ایک حد تک رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں ۔ اندر سے  ایک آدھ آواز ضرور آجاتی ہے! ۔ وجہ یہ کہ ہماری نسل نے اپنے بڑوں اور ماحول سے ایک غیر محسوس طور پر یہ چیزیں حاصل کیں اور دلائل اور اپنے طرز عمل سے سے قطع نظر آج ہم جائز ناجائز کی انہیں حدود قیود کو پسند کرتے ہیں۔


          لیکن اب ماحول ویسا نہیں رہا، گلوبل ولیج کی "آنیاں جانیاں" بہت کچھ بدل رہی ہیں۔ اب بچے  بڑوں سے زیادہ ماحول سے سیکھ رہے ہیں ، اور بڑے بھی پہلے کی طرح بچوں کو سکھانے میں مستعد نہیں ہیں ۔ کمانے کھانے کی فکر تک تواولاد کی تربیت اب بھی کی جاتی ہے، اور ایسی کہ باید و شاید۔۔۔۔ لیکن "بندے کا پتر" بننے کے عمل میں اس بے چارے  کو بڑی حد تک آزاد چھوڑدیا جاتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے کیریر منتخب کرنے میں بچے آزاد ہیں ، ایسے ہی اپنا صحیح غلط بھی خود یکھ لیں گے! اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ والدین بچوں کو اور ان کے ماحول کو خود اپنے ماحول پر قیاس کرتے ہیں کہ جیسے انہوں نے سیکھا تھا یہ بھی سیکھ جائیں گےاور وہی اقدار و روایات جو ان کی ہیں ۔ ایسا نہیں ہے!

         
          آج پیدل چلنے کا موڈ بنا تو پیدل ہی صدر کی طرف چل نکلا ، راستے میں تیسری چوتھی کلاس  کے سکول سے واپس   آتے بچوں سے ٹاکرا ہوا جبکہ ان کا ٹاکرا کالج سے گھر جاتی ایک لڑکی سے ہو رہا تھا۔سب نے  ہاتھوں میں موجود پتیاں محترمہ کے اوپر پھینکیں اور باجماعت ہیپی ویلنٹائن ڈے کا نعرہ لگادیا۔ یہ بچے اپنے ارد گرد سے سب ہضم کر رہے ہیں اور کیپیٹل ازم کے کولہو میں بیل کی طرح جتے والدین انہیں وہ کچھ دے نہیں پا رہے ہیں جو آگے چل کر انہیں اپنی بنیادوں سے مربوط رکھ سکےگا۔ اور یہ وہ خلا ہے جو وہی پر کر سکتے ہیں ان کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ بچے جو والدین سے ،اور جیسا والدین سے سیکھتے ہیں ۔۔۔۔ اگر وہ سکھانے والے بنیں تو!


          آج سے 15 20 سال پہلے تک ہم بہت سے ان اوزون لیئرز کے ساتھ زندہ تھے جو مہلک تابکاری اثرات کو ہم سے کافی دور رکھنے پر قادر تھیں ، لیکن اب  میڈیا کی اخلاقی حدود و قیود سے آزادی، موبائل فون جیسی نعمت غیر مترقبہ اور  انٹرنیٹ جیسے "ملٹی پرپز" کلوروفلورو کاربنز (CFC)نے ہمارا "ڈائریکٹ ایکسپوژر" شروع فرمایا ہوا ہے!! ہمارے خاندانی نظام کے تاروپود گزشتہ دس برسوں میں  بکھرتے دیکھے جا سکتے ہیں ، ہاں اتنا ہے کہ یہ سب کچھ یکبارگی نہیں سنار کی ٹھک ٹھک کے حساب وقوع پذیر ہو رہا ہے اس لیے "سنائی" ذرا کم دیتا ہے۔


          ایک سال بعد ہمیں شرم و حیا کا پرچار یاد آتا ہے ، ایسے ہی جیسے میلاد النبی پر دھوم دھڑکا کرکے اگلے ربیع الاول تک عشق رسول "پینڈنگ" لسٹ میں ، پھر راوی اور سکون اور چین! ۔ بچوں کو صرف اسی پہلو سے نہیں ، ان تمام پہلوؤں سے جن پر میڈیا انہیں سکھانے پڑھانے کی پوری کوشش کر رہا ہے ، وعظ و تبلیغ کی بجائے ٹھیک اسی انداز میں گائیڈ کرنے کی شدیدضرورت ہے جن خطوط پر میڈیا غیر محسوس انداز میں زہر انڈیلتا ہے۔کبھی آپ نے ایک موضوع کے طور پرپردے  کو ڈسکس ہوتے دیکھا چینلز پر! بہت ہی کم، لیکن عملا جو دکھایا جاتا ہے وہ خود ہی آمادہ" عمل" کر ڈالتا ہے ، کیا ضرورت ہے دلائل کےجھنجھٹ میں پڑنے کی ، بی پریکٹیکل! سو بچوں کو والدین کی راہنمائی کی  جتنی ضرورت آج اس پہلو سے ہے ،شاید پہلے نہ تھی۔ ویلنٹائن ڈےتو  اصل چیلنج کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے ،ٹپ آف دی آئس برگ کی طرح ۔


          یہ رویہ اب ہم بہت دیکھ لیے کہ"کچھ نہیں ہوتا" اور "خیر ہے اس سے کیا ہوتا ہے؟"۔  کم از کم گزشتہ دس سالوں میں جو تبدیلی ہم نے  دیکھی ہے اور جتنی تیزی سے اس کو مزید آگے جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں ، اس کے بعد ہمیں یہ "مٹی پاؤ" ڈاکٹرائن ترک کر دینا چاہیے۔ ورنہ اباحیت اور جنسی آوارگی کی کوئی حدود متعین نہیں ہیں ۔ 20 کروڑ کے ملک میں ایک آدھ فیصد کو چھور کر کوئی بھی اس طرف نہیں چاہتا جہاں مغرب کا اخلاقی نظام "پہنچ" چکا ہے، لیکن اس کے لیے شعوری کوشش چاہیےصاحب! گر یہ نہیں ہے بابا تو سب کہانیاں ہیں۔


          فیس بک پر ایک تصویر آج کافی گردش میں ہے جس میں ایک  پارک میں سورہ نور کی آیت کا بورڈ لگا ہے اور اس کے عین نیچے دو نوجوان ایک بینر لیے کھڑے ہیں جس پر دو عدد" مورحضرات "بنے ہیں اورتحریر ہے کہ "قریب آنے دو، پیار ہونے دو"!۔ ان کے نزدیک یہ محض شغل میلا رہاہو گا اور حضرت مفتی صاحب کی طرف سے اس پر فتوی بھی بڑے  آرام سے جاری ہو سکتا ہے لیکن یہ کوئی نہیں سوچے گا کہ یہ لاعلمی ہے تو کس کا قصور ہے؟ والدین  تو عقیقہ پر بکرا دلوا کر اور ایک ناظرہ قرآن پاک  کے ختم پر قاری صاحب کو سوٹ تحفے میں دے کر مسلمانی کے حق سے سبکدوش ہو گئے، اور مولانا صاحب جمعے میں نور بشر اور رفع الیدین آمین پر خطیب دوراں کا خطاب پا گئے ۔۔۔۔ اور یہ" مسلمان کی اولاد"گواچی گاں کی طرح "جائیں تو کہاں جائیں" کی تصویر!  شاید ہم اس وقت کے انتظار میں ہیں جب مصر کی طرح یہاں بھی یونیورسٹیز میں اسلام کا اتنا کال پڑ جائے گا کہ نماز کے لیے جگہ تک مختص نہیں ہوا کرے گی (جب پڑھے گا کوئی نہیں تو ایسی بےکار جگہوں کا کوئی مفید مصرف تو ڈھونڈ ہی لیا جاتا ہے !) اور جامعہ ازہر کی طرح یہاں تہاں مساجد و منبرپر مسند نشین اسلام کو اس کی کوئی پروا نہ ہوگی، گمراہوں کی پروا ویسے بھی کیا کرنی!


          سونے پر سہاگہ وہ ٹیپ کا مصرعہ ہےجو آج بھی ایک سٹیٹس پر دیکھا کہ " اس یلغار کا مقابلہ مساجد کے منبر و محراب ہی سے کیا جا سکتا ہے!"۔ ماشاء اللہ میڈیا کے 100 سے اوپر چینلز پلس انٹرنیٹ کی حشرسامانیاں  اور منبر و محراب سے مقابلہ! مندرجہ بالا سلوگن کو  ہر طبقے میں بڑا پسند کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے اپنی اپنی وجوہات ہیں ، مذہبی حلقے اس لیے کہ وہ پہلے ہی یہ کام کر رہے ہیں ، مبنر و محراب ہی تو سنبھالے ہوئے ہیں اور کیا کریں ۔۔۔۔ کیا کوئی اور یہ سنبھال سکتا ہے ، بھئی شکریہ ادا کرو ان کا،پنج وقتہ نماز تک رک جائے گی لوگوں کی!! اوردوسری طرف معاشروں کی نبضیں دیکھتے   اور پالیسیوں پر حسب منشا اثر اندز ہوتے گھاگ"دانشور" بھی تو اس عظیم کردار پر مطمئن ہیں۔ وہی  جو یہ چاہتے ہی نہیں برملا اعلان بھی کرتے ہیں کہ :پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے۔۔۔۔۔ انہیں اس سے بہتر اور کیا چاہیے کہ جس اسلام کو بڑی مشکل سے کھینچ کھانچ کر مسجد تک محدود کیا تھا ، خود اسی کے "مستند نمائندے" اپنا دائرہ کار منبر و محراب کو قرار دے رہے ہیں ۔  تو اور کیا! کتنے فیصدی  لوگ  مساجد میں دروس اٹینڈ کرتے ہیں؟؟ اور کتنے فیصد کا اعتبار کسی عالم  اور اس کے علم پر اتنا ہے کہ وہ مسائل زندگی میں ان سے راہنمائی چاہیں؟؟ اور اس پر طرہ تو یہ کہ خود علماء کہلانے والے کتنے ہیں جو راہنمائی کرنے کے قابل بھی ہوں !! جنہیں اپنے مسلکی جھگڑوں سے اوپر بھی کوئی سوچ فکر نصیب ہو اور جو جدید دنیا اور اس کے مسائل بارے جانکاری رکھتے ہوں ! کتنے ہیں ؟؟


          پھر عشروں کے عشرے منبر و محراب سے الحاد و بے دینی اور اباحیت و بے حیائی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی ناگزیر ضرورت کا درس اور "پانی سر سے گزر چکا" کے الارم۔۔۔ بمقابلہ آزاد میڈیا کے چند سال ! لوگ آپ تک کہاں آئیں گے ، میڈیا ہی کو دیکھ لیں جو گھروں میں گھسا ہے پھر اب جو دکھاتا ہے دیکھتے ہیں! آپ کو لوگوں تک جانا ہے ،ہر ممکن ذریعے سے ۔۔۔  اپنے قدموں پر چل کر جانے سے لیکر  ہوا کی لہروں کے دوش سمع و بصر کے ذریعے، غیر اسلام کے  آنے  کے ہر راستے پر اسلام کو کھڑا تو کریں کریں! پھر دیکھیں لوگوں کی فطرت جاگتی ہے یا نہیں !!۔۔۔۔ لوگوں کو بلانا ہےاور بتانا ہے کہ یہ دین کسی قسم کی پاپائیت کا تصور نہیں رکھتا، جتنا جتنا جس کا علم ہے وہ اس کے لیے ذمہ دار ہے اور اہل علم اس بات کے اضافی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے علم میں اضافہ کریں ، حق کو چھپائیں ناں اور باطل کے لیے مداہنت پر راضی نہ ہوں ۔ ہاں !صاحبان منبر و محراب بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں اگر وہ تھوڑا سا زحمت فرما کرمحض وعظ سنانے کے علاوہ لوگوں کے مسائل میں شریک بھی ہونا شروع کر دیں  اور اس بڑے طبقے  تک خود پہنچیں جو کسی بھی وجہ سے ان تک نہیں پہنچتا۔ عکاظ کے بازار اور طائف کے خون آلود راستےآج بھی یہی دعوت عمل دے رہے ہیں!