اتوار، 17 نومبر، 2013

سانحہ راولپنڈی، عینی شاہدین اور حقائق

آج سرشام ہی کچھ ایسے حضرات سے گفتگو اور حقائق جاننے کا ارادہ تھا جو سانحہ راولپنڈی اور بعد کی صورتحال کو قریب سے دیکھتے رہے ہیں۔

کرفیو میں نرمی ہوتے ہی عشاء سے پہلے دار العلوم تعلیم القرآن کے ایک حافظ سے ملاقات ہوئی ، حافظ عبداللہ وہاں تجوید کا درس لیتا تھا اور بالکل گم صم نظر آ رہا تھا۔ اس نے زیادہ گفتگو سے کنارہ کش رہتے ہوئے مختصر جوابات دیے۔ اس بتایا کہ نماز جمعہ کا موضوع "واقعہ کربلا" تھا۔ میرے استفسار پر کہ کیا شیعہ کو کافر وغیرہ بھی کہا گیا تھا، اس کا جواب نفی میں تھا۔ یہ پوچھنے پر کہ تقریر کیا ہوئی تھی اور اس میں کیا کہا گیا؟ عبداللہ نے بتایا کہ امام صاحب نے واقعہ کربلا کے ذمہ دار خود کوفیوں کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہی لوگ شہادت حسین کے ذمہ دار ہیں۔ سانحے کے حوالے سے اس نے کہا کہ واقعے کے بعد خود وہ اور دوسرے طالبعلم اس وقت قرب و جوار کی مختلف مساجد میں پناہ گزین ہیں۔ مقتولین کی تعداد بتانے سے گریز کرتے ہوئے آخر میں اتنا کہا کہ  "تین لوگ میرے سامنے قتل کیے گئے اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا"۔

          اس کے بعد ایک بزرگ محترم یوسف صاحب سے بات چیت ہوئی جو مرکزی جامع مسجد (جامع مسجد روڈ) پر جمعہ پڑھنے کے بعد راجہ بازار سے ہوتے ہوئے واپس آئے تھے، ان کے بقول شیعہ حضرات ہاتھوں میں بلم نما تلواریں اور چھرے لیے تعلیم القرآن کے سامنے موجود تھے اگرچہ ابھی ہنگامہ آرائی شروع نہیں ہوئی تھی۔

          کل رات 12 بجے کے قریب مسجد تعلیم القرآن میں جانے والے انجمن تاجران کے ایک عہدیدار شیخ اشرف کا کہنا تھا کہ عقبی دروازے سے داخل ہوتےہی آٹھ لاشیں ابھی تک وہاں  پڑی تھیں اور اس سے اگے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا،باقی مسجد دھویں کی شدید لپیٹ میں تھی، آگ نے سب کچھ خاکستر کر دیا۔ شیخ اشرف مدینہ مارکیٹ کے سامنے ایک اور بڑی مارکیٹ مکہ مارکیٹ میں کپڑے کے ہول سیل تاجر ہیں۔

          اس پر میرے ذہن میں یہ تجسس کل سے ہی تھا کہ فوج کا کردار کب سے شروع ہوا اور کیا رہا؟ حد تواتر کو پہنچے ہوئے بیانات کے مطابق دوپہر تین بجے کے قریب مسجد و مدرسہ تعلیم القرآن میں قتل عام ہوا اور مدینہ مارکیٹ کو آگ لگا دی گئی۔

          آگ لگائے جانے کے فورا بعد پولیس غائب ہو گئی اور ایک گھنٹے سے زیادہ کے لیے عزاداران حسین معصوم بچوں اور طالبعلموں پر شجاعت کے جوھر دکھانے کے لیے آزاد چھوڑے گئے۔ پھر ان کے دلی ارمانوں کی تکمیل کے بعد افواج پاکستان تشریف لائیں اور اس "ماتمی" جلوس کے بحفاظت اپنی منزل امام بارگاہ روڈ پہنچ جانے تک موجود رہیں۔

          مغرب سے پہلے جلوس "بخیر و خوبی" اپنی حتمی منزل امام بارگاہ روڈ پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوا تو افواج کو اپنے "فرائض کی ادائیگی" کے بعد واپس بلا لیا گیا(جب کہ میڈیا مسلسل فوج کی موجودگی کا ڈھنڈورا پیٹتا رہا)۔ اس کے بعد رات ساڑھے گیارہ بجے تک صرف فائر برگیڈ اور ریسکیو کے اہلکار تھے اور روتے سسکتے تاجر اور دکاندار، یا طلباء کے لواحقین جو کسی نہ کسی طرح خبر ملنے پر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔

          ساڑھے گیارہ سے بارہ کے درمیان ریسکیو نے اعلان کیا کہ مدرسہ کلیر ہے اور تمام لاشیں نکال لی گئی ہیں، چنانچہ اندر پھنسے ہوئے باقی طلباء اور زخمیوں کو باہر نکال لیا گیا۔ اس کے بعد تھوڑی دیر بعد فوج کی آمد دوبارہ ہوئی اور کرفیو کا اعلان کر دیا گیا۔

          یہ ساری منظر کشی اہل علاقہ کے بیانات کی روشنی میں کی گئی ہے جو خود جائے وقوعہ پر موجود رہے اور جن میں سب سے پہلے حافظ عبداللہ کے علاوہ باقی سب ہی اس مخصوص مکتب فکر سے تعلق نہیں رکھتے جو دارالعلوم تعلیم القرآن کے منتظمین اور طلباء کا ہے۔ اسی طرح سارے بیانات ایک ہی گلی یا محلہ کے لوگوں کے بھی نہیں ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ رپورٹ ہوئی کہ میڈیا کی براہ راست کوریج کرنے والی تمام گاڑیاں فوارہ چوک میں ٹک ٹک دیدم کی مثال بنی رہیں، جبکہ ان کے چینل آخر وقت تک یہی کہتے رہے کہ مشتعل لوگوں نے ان کا عملہ یرغمال بنا لیا ہے، کوریج نہیں کرنے دی جا رہی۔ جبکہ جلوس کے جانے کے بعد ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں۔  نوبت نہ ایں جا رسید کہ مدرسہ کلیر کرنے کے بعد جب بچے کھچے طلباء باہر نکلے تو فوارہ چوک میں میڈیا کو دیکھ کر زبردستی انہیں جائے وقوعہ پر لیکر گئے جو بمشکل تین سو میٹر کی دوری پر ہے، انہیں بار بار کوریج کرنے کا کہنے کے باوجود بھی انہوں نے یہ کام کرنا تھا نہ کیا، اور واپس فوراہ چوک کے "مورچوں" کا رخ کیا۔

یہ تو تھا آزاد میڈیا کا کردار جو سوشل میڈیا کو جذبات بھڑکانےوالا کہتے نہیں تھکتا لیکن اس کی غیر جانبداری ہر ایسے ہرموقع پر سب پر کھل جاتی ہے۔ اگرچہ اب سوشل میڈیا پر تصاویر بھی آ چکی ہیں جن کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہ گیا کہ کس بے دردی کے ساتھ بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔ اب آخر میں ایک ڈاکٹر صاحب کا بیان کوٹ کرنا چاہوں گا ، ڈاکٹر صاحب کا نام میں دانستہ نہیں لکھ رہا۔ ان سے دو اہم باتیں معلوم ہوئیں: ایک تو یہ کہ سول ہسپتال میں دس لاشیں رکھ کر باقی شہداء کی میتیں دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کر دی گئی ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ اب انہیں اسلام آباد کے دو بڑے ہسپتالوں پمز اور ہولی فیملی بھی بھیجا جا رہا ہے۔ دوسری بات ڈاکٹر صاحب نے یہی بتائی کہ کسی کا پیٹ چاک ہے تو کسی کا ناک یا کان کٹا ہوا ہے۔

ایک بہت ہی افسوسناک خبر یہ کہ مسجد تعلیم القرآن کو اندر اور باہر دونوں طرف سے آگ لگائی گئی اور اس سے ملحقہ ایک عمارت گر چکی ہے، مسجد کے بارے میں بھی خدشات شدید تر ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اس کے مکمل طور پر جلائے جانے کے بعد اس کے نیچے موجود مدینہ مارکیٹ آج بھی آگ کی لپیٹ میں رہی اور ہر طرف سے عمارتی ڈھانچہ کھوکھلا ہو چکا ہے۔ شاید اب یہ اتنی خطرناک ہو جائے کہ اسے دوبارہ ہی تعمیر کرنا پڑے گا۔

           آخری بات  یہ کہ حکومت لواحقین کو خاموشی سے میتیں اپنے آبائی شہروں یا مضافات کے علاقوں میں ایک ایک کر کے دفن کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے تاکہ کل دن دو بجے لیاقت باغ کے اجتماعی جنازہ میں "گنتی" دس سے زیادہ نہ ہو اور اس کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔ ایک شہید کا جنازہ سرگودھا میں پڑھا بھی دیا گیا ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ  لال مسجد کی تاریخ کو دہرا کر ایک مرتبہ پھر پاکستان کو شدید ترین جنگ و جدل میں دھکیل دیا جاتا ہے یا سنجیدگی سے قاتلوں کو گرفتار کر کے زخموں پر کچھ مرہم کا بندوبست کیا جاتا ہے ، جس کی اندریں حالات امید کم ہی نظر آتی ہےکیونکہ حکومت نے کل بھی کرفیو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جبکہ علماء کی طرف سے کل ہی لیاقت باغ میں جنازے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔  یا الٰہی خیر !