ہفتہ، 13 اپریل، 2013

آئین کی تشریح اور نفاذ اسلام



     کسی بھی مسودہ میں الفاظ کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی اہمیت بھی مسلمہ ہوتی ہے جو ان عبارات کی تشریح کا حق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید ریاستوں میں دستور کی تدوین کرتے ہوئے ایک ایک لفظ پر بار بار نظر ثانی کی جاتی ہے تاکہ آئین کی روح سے بات کسی بھی طرح باہر نہ جانے پائے۔


    آج کل باسٹھ تریسٹھ پر گرما گرم بحث کے بعدالیکشن ہونے جا رہے ہیں، چنانچہ جمہوریت اور اسلام  کی بحث ایک بار پھر سے تازہ ہو گئی ہے۔ آئین پاکستان ایک ایسی دستاویز ہے جس میں سیکولرز اور اسلام پسند دونوں اپنا اپنا حصہ رکھتے ہیں۔ ان ہی دونوں طبقوں کے اتفاق سے یہ آئین وجود میں‌آیا اور دونوں ہی مختلف تعبیرات اور تشریحات کی صورت میں پاکستان کی صورت گری کے  یکسر مختلف وژن رکھتے ہیں۔ اسلام پسند حاکمیت اعلیٰ اور خلاف قرآن و سنت کوئی قانون نہ بنائے جانے کی بات آئین سے نکالتے ہیں بلکہ تو اسے ماتھے کا جھومر بتاتے ہیں تو سیکولر حضرات عدل اجتماعی اور جمہوری ریاست اور ایسی ہی شقوں کے ساتھ مغربی تشریح کو لف کر کے قیام پاکستان کا اصل مدعا ایک ایسی ریاست کو قرار دیتے ہیں جس میں مذہب کا ریاستی سطح پر کوئی عمل دخل نہ ہو گا۔


    عملا کیا صورتحال ہے ؟ِ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسلام اگر تھوڑا بہت آئین میں ہے بھی تو حکومتی سطح پرعمل میں بالکل نہیں۔ وجہ کیا ہے؟؟ عام طور پر حکمرانوں کی "عملی کوتاہیوں" اور بد نیتی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور بات ختم۔ 

     آئیے اس تلخ حقیقت کے اسباب کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں۔


    یہ کافی معرکۃ الآراء بحث ہے کہ آئین کی تشریح کا حق کسے حاصل ہے؟ عدلیہ اور پارلیمنٹ  دونوں ہی اس کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہم فی الوقت دونوں ہی کو اس بارے میں مجاز مانتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں ادارے کس طریقہ کار سے ائین کی ممکنہ تشریح کا حق رکھنے والے اپنے ارکان کو اوپر لاتے ہیں۔


    عدلیہ کے جج صاحبان درحقیقت وکلاء ہوتے ہیں جو لاء کالجوں میں انگریزی قانون کی دفعات پڑھتے پڑھاتے ہیں اور ایک دن ججی کا امتحان پاس کر کے تقدس کی کرسی پر متمکن ہو کر "فاضل جج" ہونے کی سند پاتے ہیں۔ اب ایل ایل بی کا کورس ہو یا مزید ایل ایل ایم وغیرہ کی ڈگریاں ہوں، ان میں اسلام کا عنصر آٹے میں نمک برابر بھی شاید نہیں ہوتا۔اسی امتحانی طریق کار سے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز اوپر آتے ہیں اور آئین کی تشریح و تعبیر کے مجاز ٹھہرتے ہیں۔ 


    رہے پارلیمنٹ کے ارکان جن ان کا طریق انتخاب سب کے علم میں ہے،ان کے لیے اگر ہم آئیڈیل صوررت بھی تصور فرما لیں تب بھی ایک اچھا انسان، مسلمان، صادق و امین اور اسلام کے نظریے کے خلاف نہ چلنے والے اشخاص پارلیمنٹ میں آئیں گے، اسلام اور آئین کی اس کے مطابق تشریح کی اہلیت پھر بھی بہت دور کی بات ہے۔


    اب دونوں اداروں کے طریقہ کار اور ارکان کی اہلیت کے معیار کا خوردبینی مطالعہ کرنے سے بھی وہ وہ "چیزیں" برآمد نہیں ہو سکتیں جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکیں کہ یہ لوگ "اسلامی تشریح" کے اہل قرار پاتے ہیں۔


    لے دے کے ایک فیڈرل شریعت کورٹ نامی تنکے کا سہارا بچتا ہے جس کے ججز نے گورا اور  سلامی قانون دونوں پڑھے ہوتے ہیں لیکن اس کی اتھارٹی بھی "ناقابل یقین" ہے! اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سود کو قانونا ناجائز قرار دینے میں اس کی بے بسی سب کے سامنے رہی ہے۔ سپریم کورٹ از آل ویز سپریم!۔

     چنانچہ آئین کی پیشانی پر موٹے مارکر سے چسپاں ایک جملہ، ابتدائیے میں ایک یادداشت نما  قراردار اور پارلیمنٹ کی پر جلی حروف میں لاالٰہ الا اللہ لکھ کر دوسری طرف مقتدر اداروں تک رسائی اور اہلیت کا طریقہ کار ہی ایسا ڈیزائن فرما دیا گیا کہ اسلامی تشریح تو درکنار "مسلمانی تشریح" بھی نہ ہو سکے !! مکرر یاد رہے کہ یہ تشریح وہ گیدڑ سنگھی ہے جس نے نافذ ہونا ہے ، بلکہ جس کے مطابق آئین نافذ  ہے، اور سب کے سامنے ہے کہ کیسا نافذ ہے!۔!


     کراس چیک کے لیے پارلیمنٹ کو رہنے دیں کہ اس پر کافی بات ہوتی رہتی ہے، صرف اس امر پر نظر ڈالنا کافی ہو گا کہ اسلامی معاشرے کے وہ راہنما اصول جو آئین میں لکھے گئے ہیں یا تشریح طلب ہیں، ان کے کما حقہ نفاذ کے لیے آج تک عدلیہ نے کیا سرگرمی دکھائی ہے؟؟ وہ عدلیہ جو ہر ایرے غیرے کلازز اور شقوں میں جا گھستی ہے اور وہاں سے نادر روزگار تشریحات برامد کرتی نظر آتی ہے۔۔۔ یہاں اس کے کان اور آنکھیں کلر بلائنڈ کیوں ہیں؟ بھئی جب بنیاد ہی غلط ڈالی جائے گی تو دیوار کیسے سیدھی ہو گی!!18 ، 20 سال گورا قانون پڑھنے پڑھانے اور اسی کی گتھیاں سلجھانے والی قانونی تشریحی نظر آخر کیسے خدا رسول کی منشا کے مطابق آئین کی تشریح کر سکتی ہے؟؟

      سو میرے عزیز ہم وطنو ! اسلامی پاکستان کی داغ بیل عملا تب تک نہیں ڈل سکتی جب تک کہ وہ طریقہ کار نہ ہو جس کے تحت عملاً اسلامی ہونے کی طرف سفر کیا جا سکے۔ ورنہ لاہور کے رستے پر بگٹٹ بھاگنا مخلص اور نیک نیت ہونے کے باوجود آپ کو پشاور نہیں پہنچا سکتا۔  
    پہلی مرتبہ ہم 5 سال پورے کر کے جمہوریت کی بنیاد مضبوط کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ "اسلامی" ہونے کی بیل کب منڈھے چڑھے گی ۔ واللہ اعلم بالصواب۔

     الغرض مجالس عوام ہوں یا عدلیہ کے مقتدر طبقے، ہر دونوں کی تشکیل اس نہج پر متعین کر   رکھی گئی ہے کہ  صدائے لا الٰہ الا اللہ کا گلا گھونٹنے کا پورا پورا اہتمام ہے!!۔ اس ساری صورتحال میں اب جبکہ الیکشن سر پر ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا عملا اسلام کے نفاذ کی اس نظام کے ذریعے کوئی گنجائش کوئی معمولی سا رخنہ بھی چھوڑا گیا ہے؟؟ جہاں سے اسلامی نظام کا "مبینہ" جن نقب لگا کر اس نظام کی بوتل سے باہر آ اجائے؟؟ یا نو من کا تیل اکٹھے کرتے کرتے ہی قومی زندگی اور اسلامی جماعتوں کے مزید پچاس ساٹھ برس گزر جائیں گے؟؟؟

       سبھی جانتے ہیں کہ فقہی اختلافات کو چھوڑ کر 90 فیصد چیزیں اتفاقی ہیں, ان کو تو اختلاف چھو کر بھی نہیں گذرا، پھر ان کا نفاذ نہ کرنا چہ معنے دارد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ "یہ معنے دارد" کہ ملا صاحبان کو ویٹی کن سٹی میں خلعت فاخرہ بخش کر عیسائیت کو اس کی روح کے ساتھ پیش کرنے کی توقع رکھنا جتنا مضحکہ خیز ہے اس سے کہیں زیادہ "بی اے" پاس یا "گورا قانون" میں زندگی کی صبح شام کرنے والے ارکان پارلیمان و عدلیہ سے آئین کو اسلامی تقاضوں کے مطابق نافذ کرنے کی توقع ہے!۔