پیر، 21 اپریل، 2014

کچھ بھائیوں دوستوں کی نذر

گزرنے والے سب دنوں میں
دن کے مشکل ان پَلوں میں،
جن کا نقشہ زباں سے کھینچوں ،
تو چُوک جاؤں!

اُن دنوں میں ان پلوں میں
یاد آنے کی انتہائیں
دل سے نکلی سب دعاائیں
اپنے اُن دوستوں کا صدقہ،
جو رات دن کے عظیم ہیکل کی سیر کرنے
اجنبی منزلوں کی جانب،
اک تھکاوٹ بھرے سفر کا
آج بھی زاد راہ ہیں،
ہمسفر ہیں، دل کی چاہ ہیں!

جو سر کو سجدوں میں دیر تک گرائے
خدا سے گر کچھ بھی مانگتے تھے
تو خود سے پہلے وہ زبانیں
ہمارے ناموں پہ لڑکھڑاتیں
خود سے پہلے ان کے آنسو
!ہمارے ناموں پہ گرتے رہتے

کہ جن کی معیت میں
ہم نے سیکھا
نظر بچا کر سر جھکا کر
اپنا حصہ بھی دوستوں کو
ایک لمحہ رُکے بِنا دان کر کے،
خوشی کی اس انتہا کو پانا،
جس کا نقشہ
زباں سے کھینچوں تو چُوک جاؤں!

جن سے ہم نے لا الٰہ کا
"راہ حق میں سر کٹا" کا
سیل باطل میں سدِ راہ کا
ایک ایسا سبق لیا تھا
جو آج بھی عشق کا قرینہ
جو آج بھی نغمہ بقا ہے
جو اج بھی زندگی کا مقصد
جو آج بھی دل کا رہنما ہے!
گزرنے والے سب دنوں میں،
دن کے مشکل ان پَلوں میں
جن کا نقشہ زباں سے کھینچوں
تو چُوک جاؤں !!!

عبداللہ آدم
21 اپریل 2014

ہفتہ، 15 فروری، 2014

مذہبی حلقوں کا طالبان مخالف استدلال


مذہبی حلقوں کا طالبان مخالف استدلال جس چیز پر بنا کرتا ہے وہ اسلامی ریاست کے خلاف قتال یعنی خروج کی بحث   ہے۔خروج ایک اسلامی ریاست یا خلیفۃ المسلمین  کے خلاف برسرپیکار ہو جانے کو کہا جاتا ہے اور اسلامی تاریخ میں اس کی مثالیں ملتی ہیں مثلا خوارج کا پورا فنامنا اور اس کے علاوہ عبدالرحٰمن بن اشعت اور نفس زکیہ و غیرھم کا خروج۔

اسلامی ریاست کے احکامات کی تطبیق ہماری آج کی مسلم قومی ریاستوں(نیشن سٹیٹس) پر لاگو کرتے ہوئے روایتی دینی حلقے ایک طرف تو اس انتہاء کو چلے گئے کہ ان جمہوری قومی ریاستوں کے حکمرانوں کو اولوالامر کے مصداق ٹھہرا دیا (مثلا سلفی) اور دوسرا گروہ مخالف سمت اتنا آگے بڑھ گیا کہ ان ریاستوں کے خلاف کسی مسلح جدوجہد کو خلافت اسلامیہ کے خلاف خروج سے جا ملایا (سلفی، بریلوی ، شیعہ سب اس تعبیر کے بہاؤ میں ہیں )۔

اس ضمن میں اصل مسئلہ اسلامی ریاست یا خلافت کے حوالےسے شرعی احکامات کو آنکھیں بند کر کے قومی ریاستوں پر چسپاں کرتے چلے جانا ہے!

جمع نقیضین کے اسے عجوبے  کا نتیجہ ہمیں کبھی زرداری اور مشرف جیسوں کے لیے اولو الامر کا خطاب سننے کی صورت میں  ملتا ہے اور کبھی لشکر صلیب کے ساتھ مل کر لاکھوں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و عفت برباد کرنے والوں کے لیے ملت کے محافظ اور مجاہد کے القابات جاری ہوتے ہیں۔

جناب ِ غامدی و "تلامذہ" اگر کوئی نئی بات کریں تو اور بات ہے ، لیکن اسلام کے سواد اعظم کی سوچ کو اپنی سوچ قرار دینے والے یہ روایتی مذہبی حلقے جانے کس طرح دارالاسلام کی شرائط کو ان موجودہ قومی مسلم ریاستوں میں پورا ہوتا دیکھ لیتے ہیں کہ  عین دارالسلام کے احکامات ہی کے یہاں جاری کرنے کو درست سمجھتے ہیں اور اسی پر بس نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام کے نظام حکم، نظامِ تجارت و تعلیم و غیرھم کے یہاں جاری نہ ہونے اور مسلمانوں کی نسل کشی پر کوئی لوگ ہتھیار اٹھا لیں تو انہیں خوارج کے القابات بھی شاید علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ یا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور سمجھ کر ہی عطا فرماتے نظر آتے ہیں۔

ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اس سب کچھ کے ساتھ ہی ساتھ یہ سارے مذہبی دھڑے بڑے دھڑلے سے خود کو نفاذ شریعت کی جدوجہد کا ٹھیکیدار بھی بتاتے ہیں،  آج دن   تک اس رستے میں اپنی "طویل اور انتھک جدوجہد" کی کہانی بھی سناتے ہیں (جس میں بس اوقات بسا اوقات دوسروں کی کاوشوں کا استخفاف یا نفی کی بساند بھی آ رہی ہوتی ہے۔ ) اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف "میری والی شریعت" کا ڈھکے چھپے رونا بھی روتے ہیں۔ پھر گورے کے دیے فریم ورک میں رہتے ہوئے خالصتا "پرامن جمہوری" طریقے سے شریعت کے نفاذ کی عظیم منزل بھی حاصل کرنے کا عزم صمیم اور اعادہ بھی کرتے ہیں ۔۔۔۔ بس بندوق کی بات کی نہیں اور خروج کے فتاویٰ آئے نہیں !!!

ان طبقوں کی خدمت میں چند سادہ سوالات عرض ہیں::

۔۔فقہائے عظام اور ائمہ سلف جن پر ہماار اتفاق ہے وہ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ آیا ایسا عملا ممکن ہے کہ اسلام ایک ریاست کے نظم کے طور پر عملا اس میں نافذ نہ ہو پھر بھی وہ ایک ریاست اسلامی ہو اس کا حکمران شرعی اولو الامر ہو۔
۔۔ علمائے سلف اور فقہائے امت دارالاسلام کی شرائط کا اطلاق دار کی موجود صورتحال پر کرتے ہیں یا اقرار باللسان ہی سے اسلامی ریاست مان لی جاتی ہے؟؟کیا علمائے امت کے ہاں ایک ایسی اسلامی ریاست کا تصور ہے جو محض نظریاتی ہو، عملی طور پر کفار کے قوانین، کفار کے نظام اس میں نافذ ہوں اور  پیشانی پر کلمہ طیبہ اس کے اسلامی ریاست تسلیم کیے جانے کی  سند دیتا  ہو!
۔۔یہ تضاد کیوں ہے کہ ایک طرف اولوالامر اور اسلامی ریاست قائم ہے اور دوسری طرف اس اسلامی ریاست میں اسلام کے لیے جدوجہد ہو رہی ہے !! یہ دونوں باتیں تاریخ اسلام میں اس سے پہلے کب ایک ساتھ تسلیم کی گئی ہیں؟؟

۔۔ کیا ایک ریاست کو اسلامی تسلیم کرنے کے بعد اس میں اسلام کی جدوجہد کرنا کھلا تضاد نہیں؟؟ اگر تسلیم کر لیا ہے تو جدوجہد کس لیے اور اگر جدوجہد کی جا رہی ہےتو اسلامی ماننا چہ معنی دارد؟؟

۔۔نفاذ شریعت، اقامت دین، یا خلافت کے قیام کے ایک ہی مقصد کے لیے دو طریقے اتنا الگ حکم کیوں کر رکھتے ہیں کہ ایک طرف جمہوری طریقہ  مبارک اور عین اسلامی اور دوسری طرف قتال کا طریقہ  خروج اور فساد فی الارض قرار دیا جاتا ہے؟؟ اس تفریق پر انگریز کے دیے گئے معیارات کو چھوڑ کر قرآن و سنت و فہم سلف سے کیا دلائل ہیں؟؟

۔۔۔ آخری سوال یہ کہ ایک جگہ جہاں دین سارے کا سارا للہ کے لیے نہ ہو وہاں اسلام کا نظام نافذ کرنے کے لیےلڑنا(لیکون الدین کلہ للہ)  کیا کہلاتا ہے؟؟خروج یا جہاد!!
دوسری طرف  نفاذ اسلام کے لیے جمہوری جدوجہد کیا ہے؟  اسلام کا مزاج اور طریقہ کار یا انسانیت پرستی کے مارے ہوئے مغرب کی سوچ و فکر کا سیاسی مظہر؟؟

۔۔۔اعلائے کلمۃ اللہ  کے لیے  اگر جمہوری جدوجہد(کم از کم) غیر منصوص ہونے کے باوجود ایک میسر حکمت عملی ہو سکتی ہے تو قتال منصوص و معروف ہونے کے باوجود بھی ہر صورت میں دھتکار اور تھتکار کا نشانہ ہی کیوں؟؟  اسے بھی ایک حکمت عملی کے طور پر کیوں نہیں لیا جا سکتا۔

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

(صاحب تحریر اسلامی تحریکوں کا ایک طالب علم، یا شاید یہ بھی نہیں کہلا سکتا!تحریر کا مقصد ہر حال میں قتال کی دعوت دینا نہیں  بلکہ صرف  دلائل کی بنیاد پر صورتحال کو معروضی انداز میں دیکھنےاور اس سلسلے میں شرعی معیارات کے التزام کرتے ہوئے تجزیہ کرنے کی ضرورت کی طرف توجہ دلانے  کی ایک  کوشش ہے۔)

13فروری 2014ء

جمعہ، 13 دسمبر، 2013

راہ یقین، زاویہ نگاہ، شہادت فی سبیل اللہ

کامیابی اور ناکامی کو مادے کے ترازو میں تولنے والے کبھی بھی مابعد الموت کی حقیقتوں پر یقین نہیں کر سکتے تو موت میں کامیابی پا جانے کے فلسفے کو کیسے سمجھ سکیں گے ، کبھی نہیں !

اس فلسفے کی جڑیں ایک طرف ایمان بالآخرۃ میں پیوست ہیں تو دوسری طرف اُس ذات پر لا زوال یقین کے دل کے نہاں خانوں میں گندھے ہونے کا تقاضا کرتی ہیں۔ نہ تو کمزور ایمان والا ایسی استقامت کااہل ہو سکتا ہے اور نہ ہی یقین کی راہ میں لڑکھڑانے والے یہ مقام عالی شان سہار پاتے ہیں !

راہِ ابراہیم تو بلال و خباب کا سا یارا مانگتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گوشت ہڈیوں سے الگ ہوتا، پگھلتا ہے تو کامیابیوں کی نوید ملتی ہے،کہیں آل یاسر کو کہا جاتا ہے "صبرا صبرا یا آل یاسر ! آل یاسر صبر کرو تمہارا بدلہ جنت ہے!" پھر کہیں خبیب سامنے ہوتے ہیں " اگر انگ انگ کاٹ لیا جائے تو بھی گوارا نہیں ہے کہ نبیؐ کو ایک کانٹا بھی چبھ جائے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بعد شہادت شاہزادوں کو ایک کفن کا کپڑا بھی پورا نہ ہو تب مقام آتا ہے کہ خون کا قطرہ زمین پر بعد میں گرتا ہے مقامِ علیین پہلے دکھا دیا جاتا ہے۔

یہ اصحاب الاخدود کی راہ ہے!!

جہاں اجسام جلتے بھنتے ہیں تو ہی ارواح بلندیوں کا سفر طے کرتی ہیں۔ کامیابی کے معیارات یہاں طے ہوتے ہیں۔ جلنے مٹ جانے والے ، فنا کے سفر پر روانہ کر دیے جانے والے تب کامران اور سب سے بڑی کامیابی کے ٹھپے لگواتے نظر اتے ہیں اور مادہ پرستی کی جیت ، دو دن کے ''حاکم اعلیٰ'' کی فتح عظیم ناکامی  !!!

بس دیکھنے والی نظر چاہیے ! ایمان کے حقائق سے دنیا کو دیکھنے والی نظر ۔۔۔۔۔۔۔۔ دیدہ عبرت نگاہ اور نور ایمان سے منور بصیرت الٰہی سے جڑی نگاہ بصیرت افروز۔ پھر شھید کے زندہ ہونے پر بھی حق الیقین ہو جاتا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وعدوں کے برحق ہونے پر بھی ۔ پھر باطل کتنا پرشکوہ ہو جائے  نگاہیں کچھ اور ہی دیکھ رہی ہوتی ہیں ایک زیر لب مسکراہٹ اس سارے سطوت و جبروت کی خاک اڑاتی ہے! اور وعدوں پر ایسا لازوال یقین کہ نیزے کی انی سینے سے پار ہوتے ہوتے بے اختیار صدا نکلتی ہے " رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا"۔

عبداللہ بن جبیر، دربارِ حجاج میں گرجتے نظر آتے ہیں کہ حجاج آج طریقہ اختیار کر لو ، جس طریقے سے مجھے مارو گے تمہیں بھی اسی طریقے سے روز قیامت مارا جائے گا !!! افق کے اس پار دیکھنے والی نگاہیں تب موت کو ہی محبوب ترین چیز بنا چھوڑتی ہیں۔اورجس نے "اُس پار" جھانک لیا پھر وہ طعنوں باتوں اور فتوؤں سے کہاں رکتا ہے۔ تب یقینی موت کو گلے لگانے رخصت ہونے والا ہنستا اور "بچ جانے والے" روتے ہیں !!!

زبان کی وفاداریاں تو ہر دور کے عبداللہ بن اُبی بھی جتاتے رہے ہیں ۔ سید احمد سے احمد یاسین تک، عمر المختارسے شامل بسایوف تک ، اور سید قطب سے عبدالقادر مولہ تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شہداء ہیں جو اپنے خونِ رگِ جاں سے حق کی گواہی دیتے ہیں! شہادتِ حق کا سب سے بڑا درجہ اپنے خون سے ادا کر کے احساس دلاتے ہیں کہ امت کی خاکستر میں کچھ چنگاریاں شعلہ جوالہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں ابھی!!!

زبان رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا جاتا ہے: ""روز قیامت اہل عافیت آرزو کریں گے کاش ہمارے جسم قینچیوں سے کاٹ دیے جاتے پر آج ہمیں یہ مقام مل جاتا جو اہل بلاء و ابتلاء کو مل رہا ہے!!"" ( سلسلہ صحیحہ للالبانی)

ایک دار العمل ہے ایک دار الجزاء ہو گا ۔
اللہ کی رضا سب سے بڑی رضا ہے، اللہ کا صلہ سب سے بڑا صلہ ہے۔

اتوار، 17 نومبر، 2013

سانحہ راولپنڈی، عینی شاہدین اور حقائق

آج سرشام ہی کچھ ایسے حضرات سے گفتگو اور حقائق جاننے کا ارادہ تھا جو سانحہ راولپنڈی اور بعد کی صورتحال کو قریب سے دیکھتے رہے ہیں۔

کرفیو میں نرمی ہوتے ہی عشاء سے پہلے دار العلوم تعلیم القرآن کے ایک حافظ سے ملاقات ہوئی ، حافظ عبداللہ وہاں تجوید کا درس لیتا تھا اور بالکل گم صم نظر آ رہا تھا۔ اس نے زیادہ گفتگو سے کنارہ کش رہتے ہوئے مختصر جوابات دیے۔ اس بتایا کہ نماز جمعہ کا موضوع "واقعہ کربلا" تھا۔ میرے استفسار پر کہ کیا شیعہ کو کافر وغیرہ بھی کہا گیا تھا، اس کا جواب نفی میں تھا۔ یہ پوچھنے پر کہ تقریر کیا ہوئی تھی اور اس میں کیا کہا گیا؟ عبداللہ نے بتایا کہ امام صاحب نے واقعہ کربلا کے ذمہ دار خود کوفیوں کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہی لوگ شہادت حسین کے ذمہ دار ہیں۔ سانحے کے حوالے سے اس نے کہا کہ واقعے کے بعد خود وہ اور دوسرے طالبعلم اس وقت قرب و جوار کی مختلف مساجد میں پناہ گزین ہیں۔ مقتولین کی تعداد بتانے سے گریز کرتے ہوئے آخر میں اتنا کہا کہ  "تین لوگ میرے سامنے قتل کیے گئے اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا"۔

          اس کے بعد ایک بزرگ محترم یوسف صاحب سے بات چیت ہوئی جو مرکزی جامع مسجد (جامع مسجد روڈ) پر جمعہ پڑھنے کے بعد راجہ بازار سے ہوتے ہوئے واپس آئے تھے، ان کے بقول شیعہ حضرات ہاتھوں میں بلم نما تلواریں اور چھرے لیے تعلیم القرآن کے سامنے موجود تھے اگرچہ ابھی ہنگامہ آرائی شروع نہیں ہوئی تھی۔

          کل رات 12 بجے کے قریب مسجد تعلیم القرآن میں جانے والے انجمن تاجران کے ایک عہدیدار شیخ اشرف کا کہنا تھا کہ عقبی دروازے سے داخل ہوتےہی آٹھ لاشیں ابھی تک وہاں  پڑی تھیں اور اس سے اگے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا،باقی مسجد دھویں کی شدید لپیٹ میں تھی، آگ نے سب کچھ خاکستر کر دیا۔ شیخ اشرف مدینہ مارکیٹ کے سامنے ایک اور بڑی مارکیٹ مکہ مارکیٹ میں کپڑے کے ہول سیل تاجر ہیں۔

          اس پر میرے ذہن میں یہ تجسس کل سے ہی تھا کہ فوج کا کردار کب سے شروع ہوا اور کیا رہا؟ حد تواتر کو پہنچے ہوئے بیانات کے مطابق دوپہر تین بجے کے قریب مسجد و مدرسہ تعلیم القرآن میں قتل عام ہوا اور مدینہ مارکیٹ کو آگ لگا دی گئی۔

          آگ لگائے جانے کے فورا بعد پولیس غائب ہو گئی اور ایک گھنٹے سے زیادہ کے لیے عزاداران حسین معصوم بچوں اور طالبعلموں پر شجاعت کے جوھر دکھانے کے لیے آزاد چھوڑے گئے۔ پھر ان کے دلی ارمانوں کی تکمیل کے بعد افواج پاکستان تشریف لائیں اور اس "ماتمی" جلوس کے بحفاظت اپنی منزل امام بارگاہ روڈ پہنچ جانے تک موجود رہیں۔

          مغرب سے پہلے جلوس "بخیر و خوبی" اپنی حتمی منزل امام بارگاہ روڈ پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوا تو افواج کو اپنے "فرائض کی ادائیگی" کے بعد واپس بلا لیا گیا(جب کہ میڈیا مسلسل فوج کی موجودگی کا ڈھنڈورا پیٹتا رہا)۔ اس کے بعد رات ساڑھے گیارہ بجے تک صرف فائر برگیڈ اور ریسکیو کے اہلکار تھے اور روتے سسکتے تاجر اور دکاندار، یا طلباء کے لواحقین جو کسی نہ کسی طرح خبر ملنے پر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔

          ساڑھے گیارہ سے بارہ کے درمیان ریسکیو نے اعلان کیا کہ مدرسہ کلیر ہے اور تمام لاشیں نکال لی گئی ہیں، چنانچہ اندر پھنسے ہوئے باقی طلباء اور زخمیوں کو باہر نکال لیا گیا۔ اس کے بعد تھوڑی دیر بعد فوج کی آمد دوبارہ ہوئی اور کرفیو کا اعلان کر دیا گیا۔

          یہ ساری منظر کشی اہل علاقہ کے بیانات کی روشنی میں کی گئی ہے جو خود جائے وقوعہ پر موجود رہے اور جن میں سب سے پہلے حافظ عبداللہ کے علاوہ باقی سب ہی اس مخصوص مکتب فکر سے تعلق نہیں رکھتے جو دارالعلوم تعلیم القرآن کے منتظمین اور طلباء کا ہے۔ اسی طرح سارے بیانات ایک ہی گلی یا محلہ کے لوگوں کے بھی نہیں ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ رپورٹ ہوئی کہ میڈیا کی براہ راست کوریج کرنے والی تمام گاڑیاں فوارہ چوک میں ٹک ٹک دیدم کی مثال بنی رہیں، جبکہ ان کے چینل آخر وقت تک یہی کہتے رہے کہ مشتعل لوگوں نے ان کا عملہ یرغمال بنا لیا ہے، کوریج نہیں کرنے دی جا رہی۔ جبکہ جلوس کے جانے کے بعد ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں۔  نوبت نہ ایں جا رسید کہ مدرسہ کلیر کرنے کے بعد جب بچے کھچے طلباء باہر نکلے تو فوارہ چوک میں میڈیا کو دیکھ کر زبردستی انہیں جائے وقوعہ پر لیکر گئے جو بمشکل تین سو میٹر کی دوری پر ہے، انہیں بار بار کوریج کرنے کا کہنے کے باوجود بھی انہوں نے یہ کام کرنا تھا نہ کیا، اور واپس فوراہ چوک کے "مورچوں" کا رخ کیا۔

یہ تو تھا آزاد میڈیا کا کردار جو سوشل میڈیا کو جذبات بھڑکانےوالا کہتے نہیں تھکتا لیکن اس کی غیر جانبداری ہر ایسے ہرموقع پر سب پر کھل جاتی ہے۔ اگرچہ اب سوشل میڈیا پر تصاویر بھی آ چکی ہیں جن کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہ گیا کہ کس بے دردی کے ساتھ بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔ اب آخر میں ایک ڈاکٹر صاحب کا بیان کوٹ کرنا چاہوں گا ، ڈاکٹر صاحب کا نام میں دانستہ نہیں لکھ رہا۔ ان سے دو اہم باتیں معلوم ہوئیں: ایک تو یہ کہ سول ہسپتال میں دس لاشیں رکھ کر باقی شہداء کی میتیں دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کر دی گئی ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ اب انہیں اسلام آباد کے دو بڑے ہسپتالوں پمز اور ہولی فیملی بھی بھیجا جا رہا ہے۔ دوسری بات ڈاکٹر صاحب نے یہی بتائی کہ کسی کا پیٹ چاک ہے تو کسی کا ناک یا کان کٹا ہوا ہے۔

ایک بہت ہی افسوسناک خبر یہ کہ مسجد تعلیم القرآن کو اندر اور باہر دونوں طرف سے آگ لگائی گئی اور اس سے ملحقہ ایک عمارت گر چکی ہے، مسجد کے بارے میں بھی خدشات شدید تر ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اس کے مکمل طور پر جلائے جانے کے بعد اس کے نیچے موجود مدینہ مارکیٹ آج بھی آگ کی لپیٹ میں رہی اور ہر طرف سے عمارتی ڈھانچہ کھوکھلا ہو چکا ہے۔ شاید اب یہ اتنی خطرناک ہو جائے کہ اسے دوبارہ ہی تعمیر کرنا پڑے گا۔

           آخری بات  یہ کہ حکومت لواحقین کو خاموشی سے میتیں اپنے آبائی شہروں یا مضافات کے علاقوں میں ایک ایک کر کے دفن کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے تاکہ کل دن دو بجے لیاقت باغ کے اجتماعی جنازہ میں "گنتی" دس سے زیادہ نہ ہو اور اس کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔ ایک شہید کا جنازہ سرگودھا میں پڑھا بھی دیا گیا ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ  لال مسجد کی تاریخ کو دہرا کر ایک مرتبہ پھر پاکستان کو شدید ترین جنگ و جدل میں دھکیل دیا جاتا ہے یا سنجیدگی سے قاتلوں کو گرفتار کر کے زخموں پر کچھ مرہم کا بندوبست کیا جاتا ہے ، جس کی اندریں حالات امید کم ہی نظر آتی ہےکیونکہ حکومت نے کل بھی کرفیو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جبکہ علماء کی طرف سے کل ہی لیاقت باغ میں جنازے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔  یا الٰہی خیر !

         
         

بدھ، 14 اگست، 2013

"اسلامی وطن پرستی"

           کون کہتا ہے مسلمان وطن پرست نہیں ہوتا اور اسلام وطن پرستی کی نفی کرتا ہے؟اسلام تو سبق دیتا ہے کہ وطن کے لیے لڑو اور مرو، کٹ جاؤ لیکن وطن پر آنچ نہ انے دو ۔ ۔ ۔ ۔لیکن ایک منٹ! وطن پرستی ہے کیا؟؟ قومیت نام کس چیز کا ہے؟؟

کیا رنگ؟؟نسل، علاقہ وطن ہے؟؟یا زبان اس کی بنیاد ہے؟؟
لیکن تم نہیں جانتے مسلمان کا وطن کیا ہے!تمہاری وطن کی گنتی تو 1924 کے باؤنڈری کمیشنز اور سائیکس پیکو معاہدے سے شروع ہوتی ہے !!!

 مسلمان کا وطن تمہیں سلمان فارسی بتا گیا ہے ، سلمان بن اسلام بن اسلام بن اسلام!

            صہیب رومی سے مثنی بن حارثہ تک ، اور ابو بکر صدیق سے لیکرخالد بن ولید تک، کس کس کا نام آتا ہے ، اپنے ہم علاقہ، ہم قبیلہ، ہم زبان، ہم رنگ اور ہم نسل انسانوں   کے خون کی ندیاں بہا دینے میں !! کیوں؟؟ یہاں سے تمہیں ان کا "وطن" بھی خوب پتہ چلتا ہے اور ان کی "وطن پرستی" اور "وطن" کے لیے جان دینے کا جذبے کا بھی !!

 بس وطن کے معنی درست کر لو ، قومیت کی بنیاد سمجھ لو ،پھر تم "قوم پرست" بنو یا "وطن" کے لیے لڑو مرو !! تمہارا دین تمہیں اس کی اجازت نہیں حکم دیتا ہے !

  گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
 
صاحبو !مسلمان اگر لڑتا ہے تو دار الاسلام کے لیے ، خواہ وہ اسے بچانے کے لیے لڑے یا قائم کرنے کے لیے ۔ ۔ ۔۔ وطن پرست لڑے گا تو بنتی مٹتی سرحدوں کے تحفظ کے لیے یا زبان رنگ نسل کی بنیاد پر اسے قائم کرنے کے لیے !!

سو سب وفاداریاں ، سب جان نثاریاں ، سب محبتوں کے جھرنے اخوت اسلام سے پھوٹیں تو وہ قابل قبول ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ افراد کی سطح ہو، قوم کا لیول ہو یا بین الاقوامی تعلقات ہوں !!!

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جوآں بے تاب ہو جائے

لوگو! انسانی اجتماعی تعلقات میں اس سے بڑا تصوراور کوئی نہیں ہے ، اس سے بڑے "قومیت" اور کوئی نہیں ہو سکتی اور اس سے بڑا "وطن" اور کوئی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست!!!
ہر ملک میرا ملک ہے کہ میرے خدا کی ملکیت ہے !!!

اور اگر میں اپنے خدا کی ملکیت سب سے پہلے خود پر تسلیم کرتا ہوں تو مجھے اسی خدا نے باقاعدہ سارے جہان پر یہ ملکیت تسلیم کروانے کا ٹھیکہ دیا ہے !!!

کسی کو برا لگتا ہے تو لگے ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن یہ ذمہ داری خود قرآں میں محمد اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لگائی گئی ہے ۔ ۔ ۔۔

ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ الکافرون(الصف)
رسول کو ھدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا کہ اس دین کو سارے ادیان پر غالب کر دے اور اگرچہ کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔

جس کو قرآن پر تنقید کی جرات ہو اور بات ہے ، لیکن قرآن سے ادنیٰ سا شغف رکھنے والا بھی دوستی اور دشمنی کی اس لکیر کے علاوہ کسی لکیر کا فقیر نہیں ہو سکتا، جسے قرآن حزب اللہ اور حزب الشیطان کے مابین قائم کرتا ہے ۔

اس حد کے علاوہ بس ایک ہی اور زمرہ ہے ، ایک ہی اور کیٹیگری ہے جسے نفاق کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دونوں طرف "یکساں" اور "برابری کی سطح پر" تعلقات کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ۔ فتح اہل ایمان کی ہو تو ان کا دم بھرتے ہیں اور اگر اہل کفر کا پلڑہ بھاری نظر ائے تو ان کے سامنے قسمیں اٹھاتے نظر اتے ہیں !!اور ان میںگھسے چلے جاتےہیں کہ کہیں کوئی افتاد نہ آن پڑے!!

مبارک ہیں وہ لوگ جو ایمان کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی کا سب سے مضبوط کڑا تھامے اس کے لیے ہر سطح پر ہر طرح کی مشکلات خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں ۔ ہجرت، دربدری، زخم اور  قتل کونسا پہاڑ ہے جو ان پر نہیں توڑا گیا لیکن وہ قائم ہیں!

 اورخبر ہو ان غافلوں کو جو اخوت اور محبت کے اس عالمگیر تصور کو چند لکیروں کا فقیر بنائے بیٹھے ہیں،رنگ برنگے جھنڈوں اور ترنگوں کا اسیر کیے ہوئے ہیں اور چند برس پرانے ان خانوں اور جھنڈوں کے تقدس کے لیے جان بھی قربان کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں!!

لوگو! اسلام کا دامان عافیت قیامت تک تمہیں پکارتا ہے،وحدت کی ان بنیادوں کی طرف پلٹ آنے کے لیے جو انسانیت کے سب سے بڑے محسن نے قائم کی تھیں ، اور اس کے ساتھیوں نے انہیں ساری دنیا میں پھیلا دیا تھا۔

انسان کی عظمت ، انسان کے کھینچے ہوئے نقشوں اور جھنڈوں کی غلامی میں نہیں ان سے آزادی میں ہے ۔۔۔۔ اس کی عزت اگر ہے تو صرف مالک الملک کی بندگی ،اسی کی غلامی اور اطاعت میں ہے۔

باقی سب فانی ہے ، انسان ہوں یا ان کے خود ساختہ دستور اور عارضی سرحدیں !!
سو بقا کا دامن تھام لو، ڈوبنے والی کشتیاں سواروں کو نہیں بچایا کرتیں!!

سروری زیبا فقط اسی ذات بے ہمتا کو ہے
اک وہی ذات الٰہ باقی بتان آزری

ہفتہ، 10 اگست، 2013

بات کریں تو کس سے کریں ہم

بات کریں تو کس سے کریں ہم

دنیا والو کس سے کہیں ہم

آج کے دن یہ چاروں طرف جو

عید کا رونق میلاہے

جس میں قہقہے گونجتے ہیں

دل میں نغمے پھوٹتے ہیں


آج کے دن میں بچھڑے لوگوں،

گزرے لمحوں ، بیتی یادوں

اور اشکوں کی برسات کا

اک سیلاب کی صورت

انکھوں کے ہر ایک دریچے

دستک دینا ٹھہر گیا ہے !


بکھرے قہقہوں ، پیاری باتوں

گزری یادوں ایسے ہم دم

عید کے رونق میلے میں

جب بھی ملنے آتے ہیں

اور بھی تنہا کر جاتے ہیں!!!


عبداللہ آدم

09/08/13


ہفتہ، 8 جون، 2013

لاالٰہ الا اللہ


(( توحید رب العالمین کہ اساس ہے اسلام کی اور اولین عقائد میں سے بھی اول ہے، عملی زندگی میں اسی سانچے میں ڈھلنا یا بے رخی دکھانا  ہمیں اوج ثریا سے تحت الثریٰ تک لےآیا ہے!
زندہ قوت تھی زمانے میں جو توحید کبھی۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔آج کیاہے فقط ایک مسئلہ علم کلام))

                            
لاالٰہ

          پہلی چیز۔۔۔۔۔نفی مطلق۔۔۔ابن آدم پر عائد پہلا فرض۔۔۔دامن توحید کا پناہ گزین ہونے کی پہلی سیڑھی۔۔۔ شرک کی ساری آلائشوں کو دھو ڈالنا ۔۔۔۔ لازم ہے کہ بندہ سب کی نفی کرے۔۔۔۔۔نفی خود ساختہ ربوبیت کے دعوے داروں کی۔۔۔ سب پوجے جانے والوں کی۔۔۔ہر نظام ،ہر نظریہ حیات۔۔۔ سب کی نفی کر دے۔ ہر طاغوت سے اعلان برات ۔۔۔ ہرآمر وقت اور ۔۔۔بزعم خود حاکم مطلق سے ۔۔۔بیزاری کا اظہار ۔ ۔۔۔ ۔زباں سے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل ۔۔۔عملا کاربند ہو جائے کہ ۔۔۔ کسی فانی کی خدائی۔۔۔۔ اور حاکمیت ۔۔۔محض  روئے زمین پر ہی نہیں ۔۔۔کائنات کی ازلی ابدی وسعتوں تک پر ۔۔۔ محیط نہ تو پہلے کبھی تھی ۔۔۔ اور نہ آئندہ ہو سکتی ہے۔ ۔۔یہی پہلی "نہ" ملت ابراہیمی کا درس اولیں!۔۔۔ شجرہ ایمان کی اساس محکم !!


          نفی ہر اس کی ۔۔۔۔۔جس کی عبادت کی جائے۔۔۔ایسی ہرعبادت کی نفی۔۔۔ اور ان کی نفی جو عبادت کرتے ہیں!۔۔۔ الٰہ کی مثل۔۔۔مانند۔۔۔ الوہی خصوصیات کا حامل ۔۔۔کوئی بھی مانا جائے۔۔۔کسی کو بھی گردانا جائے ۔ ۔۔  تعظیم کے نام پر عبادت کو اس کے لیے بجا لایا جائے ۔۔۔۔یا نظام کائنات چلانے میں ۔۔۔ دخیل مانا جائے۔۔۔سب فریب نظر ہے ۔۔اس کے سوا کچھ نہیں۔۔۔ نفی ان تمام معبودانہ ناموں کی۔۔۔ان سے موسوم توہمات کی۔۔۔تصورات کی۔۔۔  اس سب فتورعقل  کی نفی ۔ ۔ ۔۔  خوہ وہ مشکلات کو حل کرنے۔۔۔یا  کروانےوالے ہوں ۔۔۔ بگڑیاں بنانے ۔۔کھوٹیاں کھری۔۔ڈوبتیاں تارنے والے۔۔۔ خزانوں کی عطا کے" مالک" ہوں۔۔۔ یا اولاد دینے والے ۔۔۔ سب کی نفی کلیتا نفی!!


"لا الٰہ" نفی ہے ۔ ۔۔نفی ہے ہندوؤں کے 33 کروڑ خداؤں کی۔۔۔لا الٰہ نفی ہے۔۔۔ عیسائی تثلیث کے گورکھ دھندے کی۔۔۔عیسیٰ یا عزیرعلیھما السلام کو اللہ کا بیٹا ماننے کی۔۔۔ لاالٰہ نفی ہے ہر شرک کرنے والے کے شرک کی!لا الٰہ نفی ہے نظاموں کی خدائی کی۔۔۔ اور خود ان نظاموں کی عبادت کرنے والوں کی!۔۔۔ جمہوریت، کمیونزم ۔۔۔ ہزاروں "ازم"۔۔۔لاالٰہ کی تلوار کی زد میں  ۔۔۔ ان کی نفی ان دولفظوں میں پنہاں!نفی ۔۔۔۔۔نفس کو الٰہ کا درجہ دینے کی۔۔۔ خواہش کا بت پوجنے کی۔۔۔ اسے شتر بے مہار خود پر لاگو کیے رکھنے۔۔۔اور۔۔۔ لذات و شہوات کا اسیر ہونے کی!


ہر فانی کی خدائی کی نفی لاالٰہ  ۔۔۔ شمس و قمر ۔۔۔شجر و حجر ۔۔۔ دیوتاا وتار۔۔۔ پیر پیغمبر ۔۔۔ اولیاء شہداء۔۔۔ نظام و خواہشات  ۔۔۔ کسی کو خدائی کا کوئی بھی درجہ۔۔۔کسی بھی طرح دینا ۔۔۔ اعلانیہ ۔۔۔یا پھر۔۔۔ حیلوں بہانوں سے۔۔۔تاویلات کے سہارے۔۔۔سب رد ہے ۔۔۔۔   مردود ہے۔۔۔خودی ہے تیغ فساں لا الٰہ الا اللہ!!!

الا اللہ

نفی کے بعداثبات!۔۔۔بس اب ایک کو مان لینا۔۔۔انما اللہ الٰہ واحد۔۔۔ معبودتو صرف ایک اللہ ہی ہے!۔۔۔لائق عبادت۔۔۔آنسوؤں بھری دعاؤں سے ۔۔۔جبین نیاز کے سجدوں تک کا سزاوار۔۔۔آہ سحرگاہی سے ۔۔۔ مناجات نیم شب تک۔۔۔عبودیت کی ہر ادا۔۔۔ ایک ہی کے لیے مخصوص۔۔۔یہ ہے مقصود "الا اللہ" !!


مخلوق اس کی تو۔۔۔حکم بھی صرف اسی کا۔۔۔الٰہ وہ اکیلا تو۔۔۔دین بھی فقط اس کا۔۔۔رب العالمین وہ تو۔۔۔سربلندی کا سزاواراسی کا  جھنڈا۔۔۔رزاق وہ ہے ۔۔۔نظام اس کا۔۔۔یہ تقاضائے لا الٰہ ہے!!
مردوںکو زندگی ۔۔۔بگڑی کو سنوارنا۔۔۔خزانے بخش دینا۔۔اولاد یں عطا کرنا۔۔۔اس ایک کا اختیار۔۔۔ناقابل "تقسیم"اختیار!۔۔دلوں کے حال سے آگاہ۔۔۔دل میں خیال ۔۔۔آنے سے بھی پہلے۔۔۔اسے جاننے والا!۔۔۔سب کی سب دعائیں ۔۔۔التجائیں مناجاتیں ۔۔۔ہر وقت۔۔۔ہر زبان ۔۔۔ہر جگہ سے سننے والا"سمیع"!۔۔۔ہر چیز۔۔۔ہر جگہ پر۔۔۔ہر وقت۔۔۔اس کے سامنے ۔۔۔ہر کھلا چھپا۔۔۔اندھیرا جالا۔۔۔ایک برابر دیکھنے والا"بصیر"!


محبت اور مودت کی انتہا۔۔۔صرف اس کے لیے۔۔۔عبادت و اطاعت بس اسی کے لیے۔۔۔کن فیکون کا حامل۔۔ صرف وہ! اعظم و اکبر۔۔۔وہاب و غفار۔۔۔قہار و جبار۔۔صرف وہی۔۔۔وحدہ لا شریک ہے۔۔۔ذو الجلال والاکرم ہے !!
قائم ہے قیوم ہے۔۔۔کائنات کو قیام۔۔۔اسی کی مشیت پر۔۔۔اسی کے ارادے پر۔۔۔جب تک وہ ہے! صرف مخلوق کا نہیں۔۔۔انہیں عطا ہونے والی زندگی اور۔۔۔ آلینے والی موت کا بھی ۔۔۔خالق ہے!! قادر مطلق۔۔۔اسباب سے ماوراء۔۔۔ مثالوں سے کہیں برتر!!


حتمی فیصلہ کرنے والا۔۔۔زندگی موت کا فیصلہ۔۔۔اچھے برے حالات کا فیصلہ۔۔۔اعمال کی قبولیت کا۔۔۔رد کا فیصلہ۔۔۔الیہ یرجع الامر کلہ۔۔۔سارے معاملات اسی کی طرف تو لوٹائے جاتے ہیں !۔۔۔اسی بارگاہ میں فیصلے ۔۔۔اور ان کا نفاذ ۔۔۔کوئی نہیں جو۔۔۔ان فیصلوں کو چیلنج کرسکے۔۔۔اس کا فیصلہ سوائے انصاف کے ۔۔۔اور ہوتا بھی کیا ہے! جیسا "منصف" وہ ہے ۔۔۔اور کوئی نہیں !! اسرع الحاسبین بھی ہے ۔۔۔احکم الحاکمین بھی!!تیز ترین محاسبہ ۔۔۔ درست ترین فیصلہ کرنے والا!!!


لاالٰہ الا اللہ۔۔۔ کلمہ نہیں۔۔۔الفاظ نہیں ۔۔۔عقیدہ و منہاج ہے۔۔۔سلوک ہے طریق ہے! ۔۔۔طریق نبوی ۔۔۔ایک سوچ ہے ۔۔۔فکر و دعوت ہے۔۔۔ سوچ و  فکرکی دنیاسے۔۔۔عالم رنگ و بوتک۔۔۔ایک تبدیلی۔۔۔دل و دماغ سے ۔۔۔قلب و نظر سے۔۔۔کار حکومت۔۔۔ایوان اقتدار تک۔۔۔ایک انقلابی دعوت!!لاالٰہ الا اللہ۔۔۔ ایک "قول ثابت"۔۔۔جو اس کو پا گیااس کو سمو گیا۔۔۔اس میں ڈھل گیا۔۔۔اس کے لیےصراط مستقیم سے ۔۔۔پل صراط تک۔۔۔خدا کا ساتھ ۔۔۔بشارتیں اور کامیابیاں۔۔۔تب "محمدرسول اللہ" کو سمجھنا بھی۔۔۔کوئی مشکل نہیں۔۔۔اور قدم قدم پر ۔۔۔راہ تکتی۔۔۔سلام کرتی  منزل بھی دور نہیں!!

07/06/2013