اظہار غم بھی عجیب ہی
چیز ہے ، انا پرستوں کی نظر میں انسان
کتنا بھی ہلکا کیوں ہوجائے لیکن اپنے غم کو اٹھا
باہر پٹختا ہے ۔ رونا چیخنا چلانا اور ایسے ہی فوری اظہار کے طریقے وقتی اشتعال کو
کم بھی کرتے ہیں اور زہریلے مادوں کو اندر
مزید زہر گھولتے رہنے سے بھی شاید روک دیتے ہیں ۔
دوسری طرف "انا" کا
پرچم اٹھانے والے اپنا شملہ تو اونچا
رکھتے ہی ہیں لیکن بہرصورت دو میں سے ایک بات سے نہیں بچ پاتے یا تو جلتے جلتے
کندن ہو رہتے ہیں۔ مسلسل ہلکی آنچ پر پکتے رہنا۔۔۔۔۔ پر کندن سے پہلے "ایک
آنچ" کی کسر بھی رہ جائے تو کیمیا گر ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے ۔ دوسری صورت میں پتہ نہیں اب اس لمحے کو آگہی کہیں گے یا ستم
ظریفی کہ مدت عمر غموں کو دل کی کشادگی اور دھیمے پن کی چبھن لیے سمونے والا شاید
"سیچوریٹ" ہو گیا ہے ؟؟ اندر
اور گنجائش نہیں رہی اور سیم تھور کی طرح نمی اور نمکینی واپس سطح پر آنا شروع ہو
گئی ہے۔۔۔۔۔۔ ایسا ہوتا ہے لیکن کم ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "کندن" کہانی بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کس کے ساتھ کہاں
تک پہنچی ہے ۔ "آخری آنچ "تک
کیا کہا جا سکتا ہے!
سلیقہ اظہار غم تب "حسب
ذائقہ" اور "حسب بندہ" مختلف صورتوں میں پھوٹتا ہے ۔چپ کی بادشاہی،
شاعری کا روگ ، لکھنے کی لت، سوچنے کی بیماری یا خود اپنی ذات سے بے نیازی ۔ ۔ ۔
اور بھی ہزار رنگ ہیں اس ایک "سمسیا" کے!"
لیکن ساتھ ہی ساتھ
اندر سے نقب لگ کے ہی رہتی ہے ، شگاف بڑا ہی ہوتاجاتا ۔ ۔ ۔روح کا وہ خلا جس سے
بھاگا نہیں جا سکتا ۔ جس کو بھرنے کی ایک ہی صورت ہوتی ہے کہ "سب کہہ
دو"!لیکن کیسے ؟ دوا ہی سے تو پرہیز ہوتا ہے ! روح کی تعمیر میں شاید جسم کی
تخریب !! لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ یہ تعمیر بھی ہوتی ہے کہ نہیں،کون کہہ سکتا ہے ۔
۔ ۔ ۔ اس کندن بننے میں خود اندر ون استعمال ہوتا چلا جا تا ہے ،خود کو خود جلاتا ہے جلتا ہے ، کٹتا ہے کاٹتاہے۔
پھر حلم اور بردباری
جیسی "آخری آنچ" کے بعد آتی ہے ، بس دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔۔۔۔پر
آخری آنچ آتی کب ہے؟؟کاش کوئی بتا دے ! کسی نے
“wisdom is nothing more than healed
pain” کہہ کر بڑی بات کم لفظوں میں تو
ٹھونسی ہے لیکن شاید یہ نہیں بتاسکا کہ روح کی بیشتر کھڑکیاں کھلنے کے بعد بھی وہ
تشنگی کبھی دور نہیں ہو سکتی جو زاروقطار رونے اور کسی کندھے پر سر ٹکا کر ہر
چھوٹی بڑی بات کہہ کرہو جاتی ہے۔ فطرت ہے ۔۔۔۔ کمزور انسان کتنا بھی طاقتور ہو
جائے ، کتنا لڑ سکتا ہے !!