بدھ، 27 مارچ، 2013

ڈیڈی! دہشت گرد کسے کہتے ہیں؟


))ڈیوڈ کیمبل کا یہ مکالمہ کچھ دیرینہ دوہرے معیاروں کو بڑی بے ساختگی کے ساتھ بے نقاب کرتا ہے ،
 اردو ترجمہ از قلم محترم صلاح الدین اولکھ ((

بیٹا: ڈیڈی دہشت گرد کسے کہتے ہیں؟

باپ: بیٹا آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق دہشت گرد ایک ایسے شخص کو کہتے ہیں جو سیاسی عزائم کے حصول کے لیے تشدد اور دھونس کا استعمال کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ دہشت گرد بہت برے مرد اور خواتین ہوتے ہیں جو ہم جیسے عام لوگوں کو نہ صرف خوفزدہ کرتے ہیں بلکہ کبھی کبھار قتل بھی کر دیتے ہیں۔

بیٹا: دہشت گرد عام لوگوں کو قتل کیوں کرتے ہیں؟

باپ: کیونکہ دہشت گرد عام لوگوں یا ان کے ملک سے نفرت کرتے ہیں، اس کی وضاحت کچھ مشکل ہے،بس کچھ چیزیں ایسی ہی ہیں، ہماری دنیا میں بہت سے لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر نفرت سے بھرے پڑے ہیں۔ بالکل عراقیوں کی طرح جو ہمارے لوگوں کو اغوا کر کے قید کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ اگر تمام اتحادی فوجیں عراق سے نہ نکلیں تو مغویوں کو قتل کر دیا جائے گا.

یہ ایک برا حربہ ہے جسے بلیک میلنگ کہتے ہیں، معصوم لوگوں کو اغوا کر کے دہشت گرد مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر مغربی حکومتوں نے ان کی بات نہ مانی تو وہ مغویوں کو قتل کر دیں گے.

بیٹا: جب ہم نے عراق پر حملہ کر کے معصوم لوگوں کو قتل کیا جو کہ بتا نہیں رہے تھے کہ ان کے تباہی پھیلانے والے ہتھیار کہاں ہیں تو یہ بھی بلیک میلنگ ہی تھی نا!

باپ: نہیں .... اچھا، ہاں ایک طرح سے کہہ سکتے ہو لیکن وہ الٹی میٹم تھا، تم اسے مثبت بلیک میلنگ کہہ سکتے ہو.

بیٹا: مثبت بلیک میلنگ؟ وہ کیا ہوتی ہے؟

باپ: مثبت بلیک میلنگ وہ ہوتی ہے جب کسی کو اچھے مقصد کے لیے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے. عراقی ہتھیار بہت خطرناک تھے اور ان سے پوری دنیا میں بہت سے لوگوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا. اس لیے ان کو تلاش کرنا اور تباہ کرنا بہت ضروری تھا.

بیٹا: لیکن دیڈی وہاں تو ہتھیار سرے سے تھے ہی نہیں !

باپ: ہاں یہ سچ ہے لیکن یہ ہمیں اب پتہ چلا ہے حملے کے وقت پتہ نہیں تھا. ہمارا خیال تھا کہ عراق میں ہتھیار موجود تھے.

بیٹا: تو کیا عراق میں اتنے سارے معصوم لوگوں کا قتل عام ایک غلطی ہے؟

باپ: نہیں یہ غلطی نہیں ، بس وہ ایک سانحہ تھا لیکن ہم نے بہت سی زندگیاں بچائی ہیں، تم دیکھو ہم نے بہت سے عراقیوں کو ایک ظالم شخص صدام حسین کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا لیا. صدام حسین اگر برسر اقتدار رہتا تو بہت سے عراقی شہریوں کے قتل کا حکم دے دیتا اور یقینا بہت سے لوگ قتل یا زخمی ہو جاتے. ان میں ماں باپ بھی شامل ہوتے اور بچے بھی.

بیٹا: بالکل اسی عراقی بچے کی طرح جو میں نے ٹی وی پر دیکھا تھا جس کے بازو بم دھماکے میں اڑ گئے تھے؟

باپ: ہاں بالکل اسی بچے کی طرح.

بیٹا:لیکن وہ بم تو ہم نے پھینکا تھا، اس کا مطلب ہے ہمارے رہنما دہشت گرد ہیں؟

باپ: اوہ میرے خدایا! تمہیں یہ خیال بھی کیسے آگیا؟وہ صرف ایک حادثہ تھا،بدقسمتی سے جنگ میں عام لوگ زخمی ہو ہی جاتے ہیں،اگر تم شہر پر بم گراؤ گے تو لوگوں کے زخمی ہونے کے علاوہ کیا توقع رکھ سکتے ہو.کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ایسا ہو، لیکن یوں ہو ہی جاتا ہے.

بیٹا: تو کیا جنگ میں صرف فوجیوں اور سپاہیوں کو قتل کیا جاتاہے؟

باپ: ہاں سپاہیوں کو اپنے ملک کے لیے لڑنا سکھایا جاتا ہے،یہ ان کی ذمہ داری ہے ، وہ بہادر ہوتے ہیں،وہ جانتے ہیں کہ جنگ خطرناک ہوتی ہے اور وہ مارے بھی جا سکتے ہیں کیونکہ جونہی وہ وردی پہنتے ہیں وہ دشمنوں کا ہدف بن جاتے ہیں۔

بیٹا: دہشت گرد کون سی وردی پہنتے ہیں؟دیڈی کیا جنگ کے بھی قوانین ہوتے ہیں؟

باپ: ہاں کیوں نہیں، سپاہیوں کو وردی لازمی پہننی چاہیے اور آپ اچانک ہی کسی پر حملہ نہیں کر سکتے جب تک کوئی پہلے آپ پر حملہ نہ کرے،پھر آپ اپنا دفاع کر سکتےہیں۔

بیٹا: تو کیا اسی لیے ہم نے عراق پر حملہ کیا تھا، کیونکہ عراق نے پہلے ہم پر حملہ کیاتھا اور کیا ہم اپنا دفاع کر رہے تھے؟

باپ: بالکل نہیں، عراق نے ہم پر حملہ نہیں کیا تھا، لیکن وہ ایسا کر سکتے تھےاس لیے ہم نے حملے میں پہل کی، کیونکہ عراق بڑے پیمانے پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار چلا سکتا تھا۔

بیٹا: وہ ہتھیار جو ان کے پاس تھے ہی نہیں! تو کیا ہم نے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی؟

باپ: اصولی طور پر تو یہ جنگی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی لیکن۔ ۔ ۔ 

بیٹا: اگر ہم نے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی تو پھر عراقی لوگ جنہوں نے وردی نہیں پہنی ان کو قوانین کی خلاف ورزی کی اجازت کیوں نہیں ؟

باپ: یہ بالکل الگ معاملہ ہے ، ہم نے قوانین کی خلاف ورزی کر کے بالکل صحیح کیا۔

بیٹا: لیکن ڈیڈی ہمیں یہ کس طرح پتہ چلا کہ ہم قوانین کی خلاف ورزی کر کے بھی درست تھے؟

باپ: ہمارے رہنماوں جارج بش، ٹونی بلیئر اور ہاورڈ نے ہمیں بتایا کہ پہلے حملہ کرنا درست فیصلہ تھا۔ اگر وہ نہیں جانتے کہ صحیح کیا ہے تو پھر کسے پتہ ہو گا؟ انہوں نے کہا تھا کہ عراق کو ایک بہتر ملک بنانے کے لیے کچھ کرنا ہو گا۔

بیٹا: تو کیا اب عراق پہلے سے بہتر ملک ہے؟

باپ: میرا خیال ہے بہترہے لیکن یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا،معصوم مغربی لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور اغوا کی وارداتیں تو خوفناک ہیں۔ مجھے ان معصوم مغویوں کے خاندانوں سے بہت ہمدردی ہے۔ لیکن ہم دہشت گردوں کے آگے ہتھیار تو نہیں ڈال سکتے۔ ہمیں ان کو مضبوطی سے کچلنا ہو گا۔

بیٹا: اگر مجھے دہشت گرد قید کر لیں تو آپ کیا کہیں گے؟

باپ: اوہ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ یہ بہت خوفناک اور مشکل بات ہے۔

بیٹا: تو کیا آپ مجھے مرنے کے لیے چھوڑ دیں گے؟ آپ مجھے سے پیار نہیں کرتے؟

باپ: کیوں نہیں مجھے تم سے شدید محبت ہے ، یہ بہت مشکل سوال ہے اور میں نہیں جانتا کہ اگر ایسا ہوا تو میں کیا کروں گا۔

بیٹا: اچھا اگر کوئی ہم پر حملہ کرے ہمارے گھر کو بم سے اڑا دےا ور آپ کو ممی اور جینی کو مار دے تو میں جانتا ہوں کہ میں کیا کروں گا۔

باپ: بیٹا کیا کرو گے تم؟

بیٹا: میں یہ پتہ کروں گا کہ ایسا کس نے کیا ہے اور ان کو قتل کر دوں گا، ان سے ساری زندگی نفرت کروں گا، جہاز اڑاؤں گا اور ان کے شہروں پر بمباری کر کے تباہ کر دوں گا۔

باپ: لیکن اس طرح تو بہت سے معصوم لوگ مارے جائیں گے؟

بیٹا: میں جانتا ہوں لیکن یہ جنگ ہے ڈیڈی! اور یاد رکھیے جنگ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ 

1 تبصرہ:

  1. اعلیٰ
    یہ ورڈ ویریفیکشن تو ختم کر دیں۔
    چوتھی کوشش کرنے لگا ہوں اب

    جواب دیںحذف کریں