اتوار، 27 جنوری، 2013

سلیقہ اظہار غم


اظہار غم بھی عجیب ہی چیز ہے  ، انا پرستوں کی نظر میں انسان کتنا بھی ہلکا کیوں  ہوجائے لیکن  اپنے غم کو اٹھا باہر پٹختا ہے ۔ رونا چیخنا چلانا اور ایسے ہی فوری اظہار کے طریقے وقتی اشتعال کو کم بھی کرتے ہیں اور زہریلے مادوں  کو اندر مزید زہر گھولتے رہنے سے بھی شاید روک دیتے ہیں ۔


دوسری طرف "انا" کا پرچم اٹھانے  والے اپنا شملہ تو اونچا رکھتے ہی ہیں لیکن بہرصورت دو میں سے ایک بات سے نہیں بچ پاتے یا تو جلتے جلتے کندن ہو رہتے ہیں۔ مسلسل ہلکی آنچ پر پکتے رہنا۔۔۔۔۔ پر کندن سے پہلے "ایک آنچ" کی کسر بھی رہ جائے تو کیمیا گر ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے ۔ دوسری صورت میں  پتہ نہیں اب اس لمحے کو آگہی کہیں گے یا ستم ظریفی کہ مدت عمر غموں کو دل کی کشادگی اور دھیمے پن کی چبھن لیے سمونے والا شاید "سیچوریٹ" ہو گیا ہے ؟؟  اندر اور گنجائش نہیں رہی اور سیم تھور کی طرح نمی اور نمکینی واپس سطح پر آنا شروع ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔ ایسا ہوتا ہے لیکن کم ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "کندن"  کہانی بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کس کے ساتھ کہاں تک پہنچی ہے ۔  "آخری آنچ "تک کیا کہا جا سکتا ہے!


سلیقہ اظہار غم تب "حسب ذائقہ" اور "حسب بندہ" مختلف صورتوں میں پھوٹتا ہے ۔چپ کی بادشاہی، شاعری کا روگ ، لکھنے کی لت، سوچنے کی بیماری یا خود اپنی ذات سے بے نیازی ۔ ۔ ۔ اور بھی ہزار رنگ ہیں اس ایک "سمسیا" کے!"


لیکن ساتھ ہی ساتھ اندر سے نقب لگ کے ہی رہتی ہے ، شگاف بڑا ہی ہوتاجاتا ۔ ۔ ۔روح کا وہ خلا جس سے بھاگا نہیں جا سکتا ۔ جس کو بھرنے کی ایک ہی صورت ہوتی ہے کہ "سب کہہ دو"!لیکن کیسے ؟  دوا ہی سے تو  پرہیز ہوتا ہے ! روح کی تعمیر میں شاید جسم کی تخریب !! لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ یہ تعمیر بھی ہوتی ہے کہ نہیں،کون کہہ سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس کندن بننے میں خود اندر ون استعمال ہوتا  چلا جا تا ہے ،خود کو خود جلاتا ہے  جلتا ہے ، کٹتا ہے  کاٹتاہے۔


پھر حلم اور بردباری جیسی "آخری آنچ" کے بعد آتی ہے ، بس دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔۔۔۔پر آخری آنچ آتی کب ہے؟؟کاش کوئی بتا دے ! کسی نے
 “wisdom is nothing more than healed pain” کہہ کر بڑی بات کم لفظوں میں تو ٹھونسی ہے لیکن شاید یہ نہیں بتاسکا کہ روح کی بیشتر کھڑکیاں کھلنے کے بعد بھی وہ تشنگی کبھی دور نہیں ہو سکتی جو زاروقطار رونے اور کسی کندھے پر سر ٹکا کر ہر چھوٹی بڑی بات کہہ کرہو جاتی ہے۔ فطرت ہے ۔۔۔۔ کمزور انسان کتنا بھی طاقتور ہو جائے ، کتنا لڑ سکتا ہے !!   

4 تبصرے:

  1. سوہنیو۔ اتنا فسلفہ۔
    ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی۔
    شاید اسی لئے کہا گیا ہے۔
    ٹھوکریں اتنی لگیں کہ بندہ گول ہو۔ اور پھول گول گپا بن جائے۔
    خوب اظہاریہ ہے پیارے بھیا

    جواب دیںحذف کریں
  2. یار میں خود اس سب بارے بڑا کنفیوز رہا، اور ابھی تک ہوں لیکن جواب نشتا۔ مجھے لگے کسی کو جواب نی ملتا
    میں نے تو ایک دفعہ تپ کے سٹیٹسا بھی تھا کہ سونے کو اتنا نی تپانا چاہئے کہ بھاپ بن کے اڑ ہی جائے
    اپنی قسمت میں تو لگے کیمیا گر کا ہاتھ ملنا ہی لکھا وا
    ایک دم زبردست اور قابل مطالعہ چیز

    نیم یو آر ایل کا آپشن این ایبل کر دے یار پلیز کمنٹنے کے لئے
    ایسے پابندیوں میںبندہ کمنٹنا بھی چاہے تو دوڑ جاتا ھے

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت بہت شکریہ احباب

    مانی: پائی جی فلسفے بھی اب یہیں بگھارے جانے ہیں ور سائنسیں بھی ادھر ہی اپلائی کرنی ہیں، ہلے تے ابتدائے عشق اے اگے ویکھی جاؤ۔۔۔۔۔۔۔ باقی گول ہو کے لرھکنا زیادہ تیز ہو جاتا ہے ، کی کریے ۔۔

    ڈفر: بس یار شیشے تڑخنے کے قریب ہوتے ہیں تو شاید "الاسٹک کمٹ" بھی بڑھ جاتی ہے اس سارے پراسیس میں ۔۔۔۔۔تو لوگ سمجھتے ہیں بے حس ہو گیا بالکل ہی ، شاید ایک دن جواب مل ہی جائے کہ ہاتھ گھل جاتے ہیں تب کوزہ گری آتی ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. ویسے تو غالب انکل کہہ گئے ہیں کہ

    رنج سے خوگرا ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
    لیکن بڑی اوکھی گل اے

    پریشر ککر کی گیس کے اخراج کے لیے بھی ایک سوراخ ضروری ہے ورنہ اس کا ڈھکنا چھت سے جا ٹکراتا ہے۔
    اسی طرح انسان کے لیے بھی اندر پکنے والے لاوے کا اخراج ضروری ہے ورنہ انسان گھل جاتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں