جمعرات، 3 جنوری، 2013

ایک ملاقات


وسط دسمبر ایک ایسے بندے سے گفتگو کا اتفاق ہوا  جو ایک سال قبل ایکسیڈنٹ میں دونون ٹانگوں کے فریکچر کے بعد متعدد آپریشن کروا کر بھی ہنوز صاحب فراش ہے اور پتہ نہیں کب تک یہ کیفیت قائم رہے، حال احوال کے بعد میں نے ایک میسج سنایا جو دسمبر کی مناسبت سے تھا اور یوں شروع ہوتا تھا کہ
"کوئی ہار گیا کوئی جیت گیا۔۔۔۔۔ یہ سال بھی آخر بیت گیا"

وہ:"میں تو ایک سال سے بیڈ پر ہوں"

میں :"عظیم لوگ ہو، بس اللہ سے مانگا کرو وہ دینے والا ہے"

"جب انسان بیڈ پر ہوتا ہے تو اللہ سے زیادہ اس کے قریب کوئی نہیں ہوتا اور اس سے زیادہ اللہ کے قریب کوئی نہیں ہوتا!"

"اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی بھی دوست اور مددگار نہیں ہے(سورۃ الشوریٰ)"

" میں تو اللہ کے سوا کسی کو دوست نہیں سمجھا ہوا"

"تو میں نے یہ کب کہا؟پر صبر بھی جسے اللہ دے!"

"میرے اللہ نے تو مجھے اتنا نوازا ہے کہ میں شکرادا کرنے کے قابل نہیں ہوں"

"اچھا! ذرا بتانا تو کیا نوازا ہے؟" (یہ سوال میں نے اس کا رد عمل معلوم کرنے کو کیا ، لیکن دل میں ہی سوچا کہ اس بندے نے کس چیز کا شکر ادا کرنا سال سے زیادہ تو بستر پر ہو گیا ہے اسے!)

" بن مانگے ہاتھ پاؤں دیے، آنکھیں ، دیں ، کان  دیے سب کچھ تو ہے ۔۔۔۔۔ پھر ایک ٹانگیں تھورے عرصے کے لیے لی ہیں تو باقی سب تو ہے نا!"

"مجھے ہی رلا دیا ظالما!"

"رونے کی کیا بات ہوئی؟"

"بس یار اپنی ناشکریاں یاد آگئی ہیں "

مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم یادآگئے۔  ایک جگہ لکھتے ہیں کہ نفس پرستی کی ایک صورت یہ بھی  ہے کہ انسان کو جو نعمتیں  عرصہ دراز سے حاصل ہیں ،وہ انہیں  مالک کی عطا کی بجائےاپنا حق تسلیم کرنے لگے ۔۔۔ لیجئے وہ مقام ہی نکل آیا ہے مولانا کی کتاب "حقیقت شرک و توحید " سے ، انہی کی زبانی سنیے:

""ج۔ خود پرستی کی ایک نہایت اہم اور عام شکل یہ ہے کہ جو لوگ ایک مدت تک فارغ البالی اور خوشحالی کی زندگی بسر کر چکے ہوتے ہیں اور دولت و ثروت اور اکتساب علم و فن کے وسائل پر قابض رہتے چلے آتے ہیں ، کچھ عرصہ توارث کے بعد ، اس حالت امن و اطمینان کو وہ اپنا استحقاق ذاتی اور اپنے علم و قابلت کا ثمرہ سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔۔۔۔ اس کی تہہ میں اتر کو غور کیا جائے تو یہ صریح شرک ہے۔ کیونکہ دنیا کے اندر جو کچھ ہے سب کا خالق اللہ ہے ۔تمام ذرائع و وسائل اسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور ان وسائل و ذرائع پر ہم اپنے جن اعضاء اور قوتوں قابلیتوں کے ذریعے سے تصرف کرتے ہیں وہ سب بھی خدا ہی کا عطیہ ہیں :

قُلْ هُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ    ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ 
"کہہ دو کہ وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا اور تمہارے لیے کان ، آنکھیں اور دل بنائے۔ پر تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو!" (الملک:23)
       
   ہمارے عروج و کمال کا کوئی درجہ، ہمارے علم و فضل کا کوئی مرتبہ اور ہماری عظمت و سطوت کا کوئی مقام ایسا نہیں ہے جو ہمیں اس کی بندگی و غلامی سے بے نیاز کر سکتا ہو۔ ہم سلیمان و ذوالقرنین(علیھما السلام)  ہو کر بھی اس کے آگے ویسے ہی محتاج اور فقیر ہیں جیسے سلمان و بوذر (رضی اللہ عنھما)۔ احتیاج و افتقار   ہماری ایک صفت ذاتی ہے جو کسی حال میں بھی ہم سے جدا نہیں ہو سکتی، خواہ ہم کتنے ہی بلند مرتبہ پر پہنچ جائیں  اور قوت و سطوت کی کتنی ہی بڑی مقدار فراہم کر لیں۔"" (ص۔60۔61)

بازار میں  ایک بدو کو عجیب سی دعا کرتے دیکھ کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا تھا کہ  یہ کیا دعا ہوئی : "اللھم اجعلنی من عبادک القلیل"۔۔۔۔۔ کہنے لگا امیر المومنین کیا آپ نے قرآن میں پڑھا نہیں " وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ  " کہ میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں !!

واقعی کم ہے یہ "شکرگزار" نامی مخلوق ۔

4 تبصرے:

  1. بہت اچھے، مجھے تو آپ پورے مولوی لگے، ہم انسان لوگ کچھ نہ کچھ سنتے رہیں تو ہی یاد رہتا ہے، صبر البتہ ضروری ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. @ کاشف :شکریہ بھائی ۔ بس بھائی دعا کرو کہ یہ واپسی قائم رہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. @راجہ صاحب : شکر ہے کہیں "مولبی" نہیں کہہ دیا :)

    جواب دیںحذف کریں