اتوار، 17 اپریل، 2011

PIMS، کچھ یادیں کچھ باتیں!!!

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جو پمز کے نام سے معروف ہے 1985 میں قائم کیا گیا، آج تک قائم ہے....البتہ بعض مساجد کی طرح آج تک مکمل نہیں ہو سکا... مزید تفصیل کے لیے یہاں "آہو" کریں!!!

یہ پچھلے ہفتے کی بات ہے ، میں نیورسٹی کے ہاسٹل میں تھا کہ ایک ہم جماعت کی طبیعت اچانک خراب ہوئی اور اتنی خراب ہو گئی کہ ایمبولنس طلب کرنی پڑی. بارش زوروں پر تھی، خیر جیسے تیسے کر کے مریض کو ایمبولنس میں ڈالا تو ڈرائیور نے بتایا کہ ہم پمز جائیں گے کہ قریب تر وہی ہے.

گاڑی چلنا شروع ہوئی تو میری آنکھوں میں پچھلے برس انہی دنوں کا منظر اتر آیا جب ایک دوست کے پیٹ میں پانی بھر جانے سے وہ پھولنا شروع ہو گیا تھا اور ہم ایک پرائیویٹ ہسپتال میں خوار ہونے کے بعد بالاخر اسے پمز لے کر آئے تھے.
می نے خود کلامی سی شروع کر دی::"ایک سال گزر گیا ہے؟؟ " ..." نہیں یار" ..."پتہ ہی نہیں چلا"..." "ایک دن بندہ بھی گزر جاتا ہے کوئی پتہ نہیں چلتا"..." وقت بہت تیز ہو گیا ہے"" .....

اس رات بھی مجھے بہت کچھ یاد آیا تھا، بالکل ایسے ہی جیسے آج آ رہا تھا کہ ماضی سے پیچھا چھڑایا ہی نہیں جا سکتا، ظاہراً انسان کتنا بھی بے پرواہی کا مظاہرہ کر لے، خود پر جبر کر کے "دوسروں" کو کوئی اندازہ لگانے کا موقع نہ دے... لیکن دماغ کی سکرین پر گزرے وقت کے جھماکے ضرور ہوتے رہتے ہیں!!!

مجھے وہ ڈاکٹر یاد آیا جو آج بھی یاد آتا ہے تو دل سے دعائیں نکلتی ہیں، ساری رات وہ مریضوں کو اتینڈ کرتا رہا تو ہم سمجھے کہ یہ اس کی ڈیوٹی ہے، لیکن حیران تو اس نے اس وقت کیا جب اس کے سب کولیگز کی شفٹ ختم ہوئی.... وہ بدستور وہیں تھا، اسی جذبے اور انہی چمکتی آنکھوں کے ساتھ، جو اس کا خاصہ تھیں. ابھی پچھلے دنوں ینگ ڈاکٹرز نے ہڑتال کی تو مجھے وہ یاد آیا کہ میں تو بس اسی " ینگ ڈاکٹر " سے "واقف" ہوں..."اس نے ہڑتال نہیں کی ہو گی" میرے دل نے گواہی دی.

میں نے اس کمرے کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ، جہاں رات کے پچھلے پہر ایک بزرگ اور لاوارث خاتون نے اچانک میرا دامن پکڑ کر کہا تھا کہ " بیٹا! مجھے بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو تو لا دو!"،غالبا نفسیاتی مریض بھی تھیں وہ... اور میں نے اشکبار آنکھوں سے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ اس نے میرے ساتھ کتنی نرمی کر رکھی ہے، ورنہ اعمال تو زمین کے اوپر رہنے کے قابل نہیں ہیں.

پارکنگ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے گھاس پر دیر سے ادا کی گئی عشاء کی نماز کا لطف یاد آیا جو ہمیں دبیز قالینوں میں باوجود کوشش کے نہیں ملتا..... وہ سکون، وہ وقت... اور وہ کیفیت... ناقابل بیان...!!!

اب ہم پمز پہنچ چکے تھے. ایمرجنسی میں بھائی کو چیک کیا گیا تو پتہ یہ چلا کہ بلد پریشر بہت لو ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اسے شدید سردی لگ رہی تھی اور بہت کمزوری محسوس ہو رہی تھی، ڈاکٹرز نے ٹیسٹ لکھ کر دیے جن کا رزلت ایک بجے شب آنا تھا. چند ایک چیزیں لینے کے لیے باہر میدیکل ستور تک گیا تو فلم دوبارہ چلنی شروع ہو گئی.......!!!

یہ 25 مئی 2005 کی بات ہے، جب ابا جی کی ٹانگ ایک ایکسیڈنٹ میں فریکچر ہو گئی تھی، جنرل ہسپتال میں ابتدائی ٹریٹمنت کے بعد یہی فیصلہ ہوا کہ پمز منتقل کر دیا جائے کیونکہ وہاں تجربہ کار ترین ڈاکٹرز موجود ہیں، خیر تب میں نے شاید پہلی دفعہ اس وسیع ہسپتال کا "معائنہ" کیا تھا، پھر اگلے ڈیڑھ مہینے تک صبح شام یہی وطیفہ جاری رہا.

ابا جی کا وہ شاگرد یاد آیا جس کا نام طارق تھا اور غالبا جھنگ سے اس کا تعلق تھا ، میں نے تو کیا خاک خدمت کی تھی ان دنوں میں ، اسے دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ ایسے شاگرد آج کے دور میں بھی پائے جاتے ہیں... آخری ایک ہفتہ تو اس نے "بزور بازو" مجھے اور چاچو کو منع کر دیا کہ آپ نے تو سرکے پاس رہنا ہی ہے، مجھے بھی کچھ حق ادا کرنے دیں....

لان میں باتیں کرتے ایک شخص کے الفاط یاد آئے کہ جس سے میں نے زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوچھی تھی، جواب تھا:: اللہ کے ہاں مقبول شہادت.... ::مومنوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ انہوں نے اللہ سے کیا گیا عہد پورا کر دیا(الاحزاب(

اور اب، اس وقت مجھے لال مسجد کے وہ شھداء یاد ارہے ہیں جن کی سوختہ لاشیں اسی پمز کے مردہ خانے میں لا پھینکی گئی تھیں
اور تب سے پورے پاکستان میں ::ایمرجنسی:: نافذ ہے !!!

2 تبصرے:

  1. ابھی کچھ لوگ زندہ ہيں ۔ ابھی کچھ اُميد باقی ہے

    افتخار اجمل بھوپال
    http://www.theajmals.com

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت دن سے آپ کی کوئی تحریر نظر سے نہیں گزری۔۔۔ کہا غائب ہیں؟؟؟ آپ کی تحاریر بہت منفرد ہوتی ہیں!!!

    جواب دیںحذف کریں