ہفتہ، 15 فروری، 2014

مذہبی حلقوں کا طالبان مخالف استدلال


مذہبی حلقوں کا طالبان مخالف استدلال جس چیز پر بنا کرتا ہے وہ اسلامی ریاست کے خلاف قتال یعنی خروج کی بحث   ہے۔خروج ایک اسلامی ریاست یا خلیفۃ المسلمین  کے خلاف برسرپیکار ہو جانے کو کہا جاتا ہے اور اسلامی تاریخ میں اس کی مثالیں ملتی ہیں مثلا خوارج کا پورا فنامنا اور اس کے علاوہ عبدالرحٰمن بن اشعت اور نفس زکیہ و غیرھم کا خروج۔

اسلامی ریاست کے احکامات کی تطبیق ہماری آج کی مسلم قومی ریاستوں(نیشن سٹیٹس) پر لاگو کرتے ہوئے روایتی دینی حلقے ایک طرف تو اس انتہاء کو چلے گئے کہ ان جمہوری قومی ریاستوں کے حکمرانوں کو اولوالامر کے مصداق ٹھہرا دیا (مثلا سلفی) اور دوسرا گروہ مخالف سمت اتنا آگے بڑھ گیا کہ ان ریاستوں کے خلاف کسی مسلح جدوجہد کو خلافت اسلامیہ کے خلاف خروج سے جا ملایا (سلفی، بریلوی ، شیعہ سب اس تعبیر کے بہاؤ میں ہیں )۔

اس ضمن میں اصل مسئلہ اسلامی ریاست یا خلافت کے حوالےسے شرعی احکامات کو آنکھیں بند کر کے قومی ریاستوں پر چسپاں کرتے چلے جانا ہے!

جمع نقیضین کے اسے عجوبے  کا نتیجہ ہمیں کبھی زرداری اور مشرف جیسوں کے لیے اولو الامر کا خطاب سننے کی صورت میں  ملتا ہے اور کبھی لشکر صلیب کے ساتھ مل کر لاکھوں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و عفت برباد کرنے والوں کے لیے ملت کے محافظ اور مجاہد کے القابات جاری ہوتے ہیں۔

جناب ِ غامدی و "تلامذہ" اگر کوئی نئی بات کریں تو اور بات ہے ، لیکن اسلام کے سواد اعظم کی سوچ کو اپنی سوچ قرار دینے والے یہ روایتی مذہبی حلقے جانے کس طرح دارالاسلام کی شرائط کو ان موجودہ قومی مسلم ریاستوں میں پورا ہوتا دیکھ لیتے ہیں کہ  عین دارالسلام کے احکامات ہی کے یہاں جاری کرنے کو درست سمجھتے ہیں اور اسی پر بس نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام کے نظام حکم، نظامِ تجارت و تعلیم و غیرھم کے یہاں جاری نہ ہونے اور مسلمانوں کی نسل کشی پر کوئی لوگ ہتھیار اٹھا لیں تو انہیں خوارج کے القابات بھی شاید علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ یا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور سمجھ کر ہی عطا فرماتے نظر آتے ہیں۔

ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اس سب کچھ کے ساتھ ہی ساتھ یہ سارے مذہبی دھڑے بڑے دھڑلے سے خود کو نفاذ شریعت کی جدوجہد کا ٹھیکیدار بھی بتاتے ہیں،  آج دن   تک اس رستے میں اپنی "طویل اور انتھک جدوجہد" کی کہانی بھی سناتے ہیں (جس میں بس اوقات بسا اوقات دوسروں کی کاوشوں کا استخفاف یا نفی کی بساند بھی آ رہی ہوتی ہے۔ ) اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف "میری والی شریعت" کا ڈھکے چھپے رونا بھی روتے ہیں۔ پھر گورے کے دیے فریم ورک میں رہتے ہوئے خالصتا "پرامن جمہوری" طریقے سے شریعت کے نفاذ کی عظیم منزل بھی حاصل کرنے کا عزم صمیم اور اعادہ بھی کرتے ہیں ۔۔۔۔ بس بندوق کی بات کی نہیں اور خروج کے فتاویٰ آئے نہیں !!!

ان طبقوں کی خدمت میں چند سادہ سوالات عرض ہیں::

۔۔فقہائے عظام اور ائمہ سلف جن پر ہماار اتفاق ہے وہ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ آیا ایسا عملا ممکن ہے کہ اسلام ایک ریاست کے نظم کے طور پر عملا اس میں نافذ نہ ہو پھر بھی وہ ایک ریاست اسلامی ہو اس کا حکمران شرعی اولو الامر ہو۔
۔۔ علمائے سلف اور فقہائے امت دارالاسلام کی شرائط کا اطلاق دار کی موجود صورتحال پر کرتے ہیں یا اقرار باللسان ہی سے اسلامی ریاست مان لی جاتی ہے؟؟کیا علمائے امت کے ہاں ایک ایسی اسلامی ریاست کا تصور ہے جو محض نظریاتی ہو، عملی طور پر کفار کے قوانین، کفار کے نظام اس میں نافذ ہوں اور  پیشانی پر کلمہ طیبہ اس کے اسلامی ریاست تسلیم کیے جانے کی  سند دیتا  ہو!
۔۔یہ تضاد کیوں ہے کہ ایک طرف اولوالامر اور اسلامی ریاست قائم ہے اور دوسری طرف اس اسلامی ریاست میں اسلام کے لیے جدوجہد ہو رہی ہے !! یہ دونوں باتیں تاریخ اسلام میں اس سے پہلے کب ایک ساتھ تسلیم کی گئی ہیں؟؟

۔۔ کیا ایک ریاست کو اسلامی تسلیم کرنے کے بعد اس میں اسلام کی جدوجہد کرنا کھلا تضاد نہیں؟؟ اگر تسلیم کر لیا ہے تو جدوجہد کس لیے اور اگر جدوجہد کی جا رہی ہےتو اسلامی ماننا چہ معنی دارد؟؟

۔۔نفاذ شریعت، اقامت دین، یا خلافت کے قیام کے ایک ہی مقصد کے لیے دو طریقے اتنا الگ حکم کیوں کر رکھتے ہیں کہ ایک طرف جمہوری طریقہ  مبارک اور عین اسلامی اور دوسری طرف قتال کا طریقہ  خروج اور فساد فی الارض قرار دیا جاتا ہے؟؟ اس تفریق پر انگریز کے دیے گئے معیارات کو چھوڑ کر قرآن و سنت و فہم سلف سے کیا دلائل ہیں؟؟

۔۔۔ آخری سوال یہ کہ ایک جگہ جہاں دین سارے کا سارا للہ کے لیے نہ ہو وہاں اسلام کا نظام نافذ کرنے کے لیےلڑنا(لیکون الدین کلہ للہ)  کیا کہلاتا ہے؟؟خروج یا جہاد!!
دوسری طرف  نفاذ اسلام کے لیے جمہوری جدوجہد کیا ہے؟  اسلام کا مزاج اور طریقہ کار یا انسانیت پرستی کے مارے ہوئے مغرب کی سوچ و فکر کا سیاسی مظہر؟؟

۔۔۔اعلائے کلمۃ اللہ  کے لیے  اگر جمہوری جدوجہد(کم از کم) غیر منصوص ہونے کے باوجود ایک میسر حکمت عملی ہو سکتی ہے تو قتال منصوص و معروف ہونے کے باوجود بھی ہر صورت میں دھتکار اور تھتکار کا نشانہ ہی کیوں؟؟  اسے بھی ایک حکمت عملی کے طور پر کیوں نہیں لیا جا سکتا۔

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

(صاحب تحریر اسلامی تحریکوں کا ایک طالب علم، یا شاید یہ بھی نہیں کہلا سکتا!تحریر کا مقصد ہر حال میں قتال کی دعوت دینا نہیں  بلکہ صرف  دلائل کی بنیاد پر صورتحال کو معروضی انداز میں دیکھنےاور اس سلسلے میں شرعی معیارات کے التزام کرتے ہوئے تجزیہ کرنے کی ضرورت کی طرف توجہ دلانے  کی ایک  کوشش ہے۔)

13فروری 2014ء